ذکر کیسا ہے اس سمندر کا
وہ تو قصہ ہے اس مقدر کا
کوئی منزل نہیں نہ شوق سفر
غم بھلا بھولتا ہے اب گھر کا
ا
ہم کہ ٹھہرے تری نظر میں برے
مل گیا یوں صلہ عمر بھر کا
غم سے آزاد ہو نہیں پاتے
شوق کس کو نہیں ہے دلبر کا
اپنی ہی ذات کے پجاری ہیں
جن کو دعوا ہےبرابر کا
تجھ سے دوری کا رنج ہے مجھ کو
غم تجھے بھی تو ہے ترے در کا
بات کچھ بھی نہیں مگر وشمہ
بن گیا ہے وہ بھی پتھر کا