کچھ نہ کہیے مرے مقدر کا
مجھ کو زنداں میں مارا پتھر کا
ہو مجسم نہ دے دعا کو اثر
پھر تجھے ہے خدا سے اب ڈر کا
میری اچھائی کی گواہی ہو
کہہ رہا ہے مجھے وہ خود سر کا
دیر تک جو رقیب بیٹھا رہا
اس کو اچھا سنایا ہے گھر کا
آ رزو ہو نہ زندگی کی کوئی
کیوں نہ پھر زہر دے نظر بھر کا
مانا دشمن سے تو شکایت ہے
دوست ہو گر عدو تو خنجر کا
عہد حاضر کا ہی نہیں نغمہ
مجھکو ہر دور کےیہ منظر کا
دل زباں پر سجائے پھرتی ہوں
کھوٹ رکھتی نہیں ستمگر کا
تازگی میں مثال ہے وشمہ
زخم ہے دیکھیے مقدر کا