ڈوب کر شرم سے میں مر کیوں نہیں جاتا
لوٹ کر اپنے محسن کو مر کیوں نہیں جاتا
ہوس نے رشتے کا کیا ہے تقدس پامال
پھندا ڈال کر اب میں مر کیوں نہیں جاتا
مار کر بندہ پھر پکڑا کیوں نہیں جاتا
قاتل چھلاوہ ہے کہ پکڑا نہیں جاتا
غربت نہیں مٹتی پر غریب مر جاتا
انصاف ملتا نہیں پر بک ضرور جاتا
ڈرا کر منصف کو دہل وہ بھی جاتا
بن کر معصوم جو دہائی سنائی جاتا