Add Poetry

شکوہ جواب شکوہ کی طرز پر حضور ﷺ سے امت کے حالات کا شکوہ

Poet: By: Allah Bakhash Fareedi, faisalabad

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

ظاہر میں ہیں آپ کے، باطن مغرب میں مگن ہے
جسے آپ نے تھا بت پرستی و بت فروشی سے چھڑایا

وابستگی ہے آپ سے، زیادہ مغرب کی لگن ہے
لگی آج اسے بڑے اہتمام سے بت بینی کی دھن ہے

آپ سے دور، آپ کے کردار و اوصاف سے دور
آپ کے اخلاق و گفتار و اطوار و اسلاف سے دور

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

لعو و لعب میں جیتیں تو سر سجدے میں ہیں رکھتے
واضح میں مغرب کی نمو، لباس سے بھی ہیں مغربی جھلکتے

دیکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے
پیرو کہاں سے لگتے آپ کے یہ مغرب و ہنود کے چہکتے

دیا آپ نے درس محبت و الفت و اخوت و وفا کا
سمجھا تیری قوم نے غداری و مکاری و عیاری و دغا کا

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

حضور اپنے وارث ملاّ کے انداز نرالے دیکھیں
بھول کر تیرا درس اخوت تعصب جوش للکارے دیکھیں

عشق و مستی میں تیرے خوب زلف سنوارے دیکھیں
ڈالی عداوت ایسی کہ نہ دشمن ہمیں واحدسارے دیکھیں

چاہتے سب کہ ہر آن تیرے گنبد کی بہاریں دیکھیں
نہیں غرض کہ زمانے میں تیری امت کی بہاریں دیکھیں

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

سٹیجوں پہ للکار اور جوش و ولولہ تو کسی کا کم نہیں
ظاہر میں کہیں سب مسلم بھائی ہیں من میں کسی کا غم نہیں

پر میدان حق میں ڈٹ جانے کا کسی میں دم نہیں
عصر حاضر میں کردار تیری قوم کا کسی منافق سے کم نہیں

بنے مرکب خیر و شر کے لگے نہ کوئی راہ حق کا مسافر
رکھیں قرآں کے آئینے میں لگیں کافر سے بڑے کافر

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

بنے غرض کے بندے ، کریں دین میں خرافات
تیرے عالم سے بھی چھلکیں غیر کی علامات

حضور! یہ ہیں آج کے تیرے رہبر مسلم کی کرامات
پڑے تقلید غرب میں کریں رب سے مناجات

سیکھایا آپ نے قوم کو عدل ، انصاف و مساوات
اپنائی تیری قوم نے حق تلفی و کینہ، نفرت و عداوات

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

لوٹ کر لے گئے تثلیث کے فرزند مسلم کے کردار
کھولے تیرے پیروں نے بھی خانقاہی در و دیوار

یہ دوڑئے تقلید میں اس کی نہیں مڑ کر دیکھنے کو تیار
بولے آ فرنگی! تو نہیں لاغیر ہم ہیں مدد کو تیار

ظاہر میں تو سب مانتے ہیں کہ آپ ہیں اور خدا ہے
باطن میں کسی کے نہیں آپ نہ کوئی خوف خدا ہے

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

غرب دیکھو تو حقیقت میں تیرے دین کا دشمن ہے
وہ مسلم کو ختم کرنے پہ تلا باندھے بارود کا ٹن ہے

تیرے مسلم کا رجحان ادھر اور قربان تن کا من ہے
مسلم میں نہیں غیرت یہ باندھے انہی کا کفن ہے

وہ چرا کر تیرے دیں کے اصول لگتا بڑا مومن ہے
تیرے مسلم کو دیکھو تو بنا جہنم کا ایندھن ہے

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

عدل وہاں انصاف وہاں انسانیت کی مساوات وہاں
ڈھونڈے نہ ملے انصاف کسی کو نہیں عدل کی بات یہاں

تیرے مسلم دیس میں دیکھو عدل کہاں؟ انصاف کہاں؟
مساوات کا تو نام نہ لیں ہیں بڑے بڑے سردار یہاں

کیسے مل کر بیٹھیں سب انا کی جائے بات کہاں؟
سب مفلس نادار کمی لوگ مل بیٹھیں میرے ساتھ یہاں

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

یہ ازل سے ہے قانون قدرت کے عدل کا معیار
برس رہی ہے تیرے مسلم پر خدا کے غضب کی تلوار

فرق کرتا نہیں قوموں میں جب آئے کرنے پہ یلغار
ورنہ یہ کیوں ہیں دنیا میں ہر جگہ ذلیل و خوار؟

جو مسلم تھے کبھی خدا سے سرکشی پہ بگڑ جاتے
آج اسی خدا سے وہ خود ہیں سرکشی پہ تلے

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

سمجھے نہیں تیرے مسلم نے قانون قدرت کے دستور
یقیں محکم رکھتے ہیں کہ آگے ملے گی حور و قصور

پڑا نظر آتا ہے ان کے ایمان و یقیں میں فتور
کیا یہ ممکن ہے رہ کر تیرے کردار و عمل سے دور؟

کاش کہ جان جاتے مسلم تیری نسبت کے اصول
پھرتے نہ در بدر نہ بنتے زمانے بھر کی دھول

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

وسائل کی کثرت تو ہے بہت پر نہیں عزت و وقار
جب کہیں اپنائیں تیرے اصول بنیں دیں کے مدد گار

یوں تو ہے ہر مسلم تیرے نام پہ مر مٹنے کو تیار
تو کہیں یہ فلسفے ہیں پرانے بات کوئی نئی کرو یار

چاہنے والے تیرے کیسے ہیں اے رسول مختار!
کھائیں تو تیرا پئیں تو تیرا، رہیں پھر بھی تیرے دیں کے غدار

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

کھلتے دیکھے نہیں کبھی کسی پر حق کے رموز و اسرار
پر لگتا ہے سمجھا تیرے مسلم نے انہیں بیکار

عیاں نہ ہوں جب تک تیری سیرت کے اطوار
سمویا خوب ہے ان کی آنکھوں میں شعار اغیار

پوچھو کون تو کہیں ہونے مسلم پہ فخر ہے
لگتا کردار سے ان کے سارا فریب و مکر ہے

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

پنہاں تو نہیں آپ سے زمانے میں امت کا زوال
کوئی تدبیر ہو یا رسول! چھٹے امت کا رنج و ملال

آپ ملاحظہ خواہاں ہیں اس سے بدرجہ کمال
سوئے مسلم میں تو نظر پڑتی نہیں کروٹ کی مجال

جھنجھوڑا تو بہت پر نہیں خواب غفلت سے اٹھنے کو تیار
کہیں ابھی تو بہت وقت ہے کرو ثور اسرافیل کا انتظار

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

تیرے مجاہد، تیرے ملاں لگتے نہیں دین کے غازی
پسر بڑھے القاب میں لگیں پدر سے بڑے قاضی

مسجدیں بھی کہیں للکار ہوئے مسلم کیسے بے نمازی
پر نہیں وجود میں کچھ کہ لے سکیں زمن میں بازی

عرض آپ سے ہے اے کشتی امت کے سالار
کریں حق سے دعا سلجھیں تیری قوم کے اطوار

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

شرق سے غرب حضور! تیری قوم کی گردن خم ہے
اوپر دیکھیں تو بم برسیں نیچے زمین لرزم ہے

شمال ہو کہ جنوب ٹوٹا فقط اسی پہ رنج و الم ہے
خدا کے وسیع عالم میں کیا اک مسلم کی جگہ کم ہے؟

آتی ندا ہے بھٹک کر تو مسلم اب کرتا کیوں غم ہے؟
آفاق میں بلند ہونے کیلئے تلقین قرآن تو لازم ہے

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

ہر سو بلکتی مائیں سسکتی بہنیں تیری ملت کی ہیں یا رسول
جلتی لاشیں اجڑی ہوئی ویراں ہے ہر سو امت رسول

بہتے لہو، روتی بیٹیاں اجڑے سہاگ خوار ہیں بنت بتول
دعائیں کر کر کل امت تھکی آخر کیوں ہوتی نہیں قبول؟

جواب آتا کیونکر سنو جب تم میں نہیں نبی کے اصول
نمونہ نبی کا بن کے مانگ کروں گا پھر ہر دعا قبول

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

گلہ تو نہیں آپ سے قصور ہمارا ہی ہے یا رسول
ٹھکرایا تیرے قرآں کو نہ سمجھا اس کا مقصد نزول

چھوڑا ہم نے تیرے دیں کو چھوڑے تیرے اصول
بن کے خیر و شر کے بندے گئے خدا کو بھول

سنبھال لیجئے آخر امت تو آپ ہی کی ہیں یا رسول
واسطے حسنین و زہرا کے معاف ہو امت کی بھول

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

دردِ ملت میں عرض گذار آپ سے تھے حالی و اقبال
ہو آپ کی امت زمانے میں سربلند و خوشحال

فریدی بھی ہے مدت سے اس غم میں نڈھال
پر حیلہ نظر آتا نہیں ہمارے نہ کوئی چارہ احوال

ممکن نہیں پانا دنیا میں سربلندی ، عزت و وقار
ہو نہ جب تک قوم تیری سیرت پہ استوار

یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں؟
مسلم کو تو نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں؟

Rate it:
Views: 501
30 Mar, 2017
More Religious Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets