خوابوں میں ایک جشنِ طرب دیکھتی رہی
پھیلا ہوا سکوت عجب دیکھتی رہی
دریا کے پاس پیاس کی شدت بڑھا گئی
جس دھوپ میں، میں راہِ طلب دیکھتی رہی
یارانِ شہر پیار کے فرقوں میں بٹ گئے
اک میں اکیلی بت بنی سب دیکھتی رہی
وہ تو بچھڑ چکا تھا سرِ شام ہی مگر
اور ڈھلتی شب کا میں تو غضب دیکھتی رہی
وہ ہی تو ایک عشق میں صحرا نشین تھا
آنکھوں میں جس کے قہر و غضب دیکھتی رہی
آئے گا اب وہ لوٹ کے کیا آسمان سے
تاروں میں جس کا حَسب نسب دیکھتی رہی
اس راستے میں شہرِ تمنا نہ آئےگا
کیوں دن کے انتظار میں شب دیکھتی رہی
آنکھوں میں نور ہاتھ میں جنبش نہیں مگر
وشمہ میں اپنے حال میں سب دیکھتی رہی