چلو مجھکو نہ سہی کسی اور سے پیار تو کرتی ہو گی
میری آنکھوں کو رولا کے ان آنکھوں مے شنگھار تو کرتی ہو گی
ہاتھ مے کنگن کو گھما کر وہ اداس سی بیٹھی
اپنے مطلوب کا دیر گئے انتظار تو کرتی ہو گی
ریشم سے بنے تکیے کو باہوں مے. بھر کے
یادوں کو مری نمودار تو کرتی ہو گی
جب پیار کی الجھن مے وہ خود سے جھگڑتے ہو گے
میرے برداشت کی حد کا اقرار تو کرتی ہو گی
میرے کانوں کی سماعت نے سنا کئی سال جسے
اسی انداز مے اب وہ گفتار تو کرتی ہو گی
میرے آنگھن مے لگا اسکی یادوں کا چمن
اس کو داغ دار محبت شرم شار تو کرتی ہو گی
یاد ہے آج وہ گلیاں کہ جہاں کھیلے رضا
یاد انکو بھی وطن کا طلبگار تو کرتی ہو گی