اس زمانے کو ھم بتاتےرہے
حالات جو ھم کو سکھاتے رہے
دودہ ہی تو پلایا ہے تم نے
یہ بچے ماں کو جتاتے رہے
بچپن کی جوانی کی حد لیکن
قبر تک سفید بال نبہاتے رہے
وہی ہماری یادوں کا ثمر ہیں
یاد آنے پر بہی جو بہلاتے رہے
حسرتیں جیسے پیٹ دریا کا
پیاسے تو کبھی موجوں میں نہاتے رہے
جاہلوں نے کی تعبیر جس کی
آنکھوں کو وہی خواب دکھاتے رہے
اک انجم تہا جسے زندگی میں
غم و خوشی دونوں ستاتے ریے