کیسے بھولوں میں پچھلی رات کا غم
اچھا لگتا ہے غم حیات کا غم
بھول سکتا ہے تو مری الفت
میں نہ بھولوں گی تیری بات کا غم
میری آنکھوں میں درد کا سایہ
مرے ہاتھوں میں تیرے ہاتھ کا غم
جیت کر بھی جو ہار مانی ہے
مجھ کو رہتا ہے تیری مات کا غم
میں تو قربان اس پہ تھی وشمہ
جس کو ڈستا ہے میری ذات کا غم