تنہائیوں میں چل رہا ھے یادوں کا قافلہ
کب تلک رھے گا یونہی جدائ کا سلسلہ
وہ دسترس میں نہیں تھا میری سو چلا گیا
کب تلک رھے گا یونہی وفاوًں کا سلسلہ
شادماں تھے پا کر اُسے پر رُوٹھ گئ خوشی
کب تلک رھے گا یونہی آہ و فگاں کا سلسلہ
ملے اک اجنبی سے اُسے کھونے کے بعد یارو
اب رواں ھے اُس کے دم سے چاھت کا سلسلہ
زندگی ٹھہر سی گئ اُس ساتھ میں “فائز“
کب تلک رھے گا یونہی کھونے کا سلسلہ