دُشمَنی مول لی زمانے کی
کی تھی کوشش جو مسکرانے کی
سارا ہی شہر اب مخالف ہے
کوئ جاہ ہے نا سِر چھپانے کی
کتنی بار اُس کو تم مناؤ گے
جِس کو عادت ہے روٹھ جانے کی
ڈوب جاؤں نا میں شرابوں میں
شاہی مجھکو نا دے میخانے کی
اِس لیۓ درد و غم کا عادی ہوں
اُس کی عادت تھی دل جلانے کی
شام ہوتے ہی ہر پرندے کو
یاد آتی ہے آشیانے کی
سارے ہی میکدے جو کھل گۓ ہیں
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
شاید آ جاۓ لوٹ کر باقرؔ
اُس کو جلدی نا کر بُھلانے کی