Add Poetry

وحشت و دھشت

Poet: خود By: سید احسان علی شاہ ہاشمی, کراچی

مجھ اس دور کی حالت نہیں دیکھی جاتی
وحشت و جبر و جہالت نہیں دیکھی جاتی

یاں کی بدکاری و ذلّت نہیں دیکھی جاتی
نفرت و تھمت و غیبت نہیں دیکھی جاتی

حسنِ صورت سے ہیں دنیا کی نگاہیں مسحور
زر زمیں دیکھ کے سیرت نہیں دیکھی جاتی

اف یہ بدگوئی و بدخوئی و بدآموزی
شر غضب کینہ کدورت نہیں دیکھی جاتی

خودسری ابتری بے ہودگی و بے خبری
پستیوں کی کوئی صورت نہیں دیکھی جاتی

پست معیار میں انسان کا عالم ہے عجیب
اپنے اسلاف کی چاہت نہیں دیکھی جاتی

اب خوشی اور غمی کا کوئی مفہوم نہیں
انتہا ہے شبِ فرقت نہیں دیکھی جاتی

دل میں تصویرِ بتاں اور جبیں سجدے میں
عبد ہیں روحِ عبادت نہیں دیکھی جاتی

وہ جو منبر پہ بنے بیٹھے ہیں مسجد کا چراغ
میکدہ میں تو یہ حالت نہیں دیکھی جاتی

روزِ محشر سے کہیں بڑھ کے ہے یہ دنیا کا حشر
وہ تو وہ یہ ہی قیامت نہیں دیکھی جاتی

رہزنی فسق و فجور اور حوادث احسان
پھیلتی وحشت و دھشت نہیں دیکھی جاتی

یہ غزل اقراء اکیدمی کراچی کے توسّط سے انکے ایک کتاب بنام “ شھرِ خموشان“
میں بھی آئی یہ کوئی ۱۹۸۶ یا ۱۹۸۷ کا زمانہ تھا جب وحشت و دھشت جنم لے رہی تھی۔

Rate it:
Views: 317
09 Apr, 2015
Related Tags on Life Poetry
Load More Tags
More Life Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets