ارادے نیک ہوں دنیا میں پھر کیا ہو نہیں سکتا
وگرنہ سایہ تک تیرا بھی تیرا ہو نہیں سکتا
وہ اک دشتِ بیاباں اس میں ڈیرا ہو نہیں سکتا
محبت ہو نہ جس دل میں، بسیرا ہو نہیں سکتا
ترا سب کچھ سلامت ہے، اور اس نے کچھ نہیں لوٹا
جو کچھ خط لے کے بھاگا ہے، لٹیرا ہو نہیں سکتا
میرا معیار کچھ ہٹ کے ہے، اوروں سا نہیں، سن لو
جسے میں چاہوں، کوئی ایرا غیرا ہو نہیں سکتا
ابھی ظلمت کے سائے ہیں مگر لے کام ہمت سے
کبھی یہ سوچنا بھی مت، سویرا ہو نہیں سکتا
تیری بند آنکھوں کا ہے دوش، قسمت کو برا مت کہہ
تو جب تک خود نہیں چاہے، اندھیرا ہو نہیں سکتا
یہ تیرے دل کی دنیا ہے، جہاں میری حکومت ہے
بنا میری اجازت کوئی تیرا ہو نہیں سکتا
نہیں مانگو اگر دل سے، تو کچھ ہوگا نہیں حاصل
میں تیرا ہو نہیں سکتا، تو میرا ہو نہیں سکتا
پرندے بے زباں، بے عقل، ان کو کون سمجھائے
کہ جن شاخوں پہ جھولے ہوں، بسیرا ہو نہیں سکتا