وفا کی ہر راہ بڑی پُر خار سی لگتی ہے
زیست آنسوؤں کی دیوار سی لگتی ہے
میں نے چاہا نہیں تھا پھر سے کسی کو
یہ سوچ اپنی غمگسار سی لگتی ہے
زندگی ڈھل گئی پھر غم کے سانچے میں
تیری ہر خوشی ہمیں یاد گار سی لگتی ہے
جا کے کوئی نہیں آتا کبھی پھر زمانے میں
تیری یاد بھی تو اب پُر نُور سی لگتی ہے
کسی سے جب ملاقات ہوئی ہے مسعود
اِس کی ہر بات پھر ہمیں تلوار سی لگتی ہے