رقیبوں سے تمہارے رابطے اچھے نہیں لگتے
نجانے کیوں مجھے یہ سلسلے اچھے نہیں لگتے
تم روٹھ جاؤ مجھ سے تو بجا ہے لیکن
یوں سر راہ کسی سے قہقہے اچھے نہیں لگتے
یہ مانا کہ برا ہوں میں مگر اتنا برا بھی کیا
کہ میرے ساتھ چلنے والے راستے تمہیں اچھے نہیں لگتے
ویراں ہے در و بام دشت ہے تنہائی ہے
یوں میکدے میں تمہارے قدم اچھے نہیں لگتے
غافل ہے مجھ سے یہ زمانہ لیکن
تمہاری بے رخی کے موسم مجھے اچھے نہیں لگتے
مانا کہ ہو گئ مجھ سے اب غلطی محبت کی
تمہارے دئے گئے یہ زخم مجھے اچھے نہیں لگتے
ماضی کےدریچوں سے تمہاری یاد کے اوراق
گر کر جب بکھرتے ہیں مجھے اچھے نہیں لگتے