یہ کس مقام پہ آئی ہے زندگی اپنی
رفیق رہ گۓ اپنے اور نہ خو شی اپنی
کیا پیوست جنہیں دل میں آرزو کی طرح
اُنہی سے بارھا گھایل ہوئی خودی اپنی
نہ پرکھنے کا ہُنر ہے نہ تجارت کا فہم
ہمیں تو راس نہ آئی یہ سادگی اپنی
لکھوں تو کیسے مراسِم پہ اِہلِ درد کہ اب
نہیں اُس موج پہ اب کہ ادآئگی اپنی
بزمِ یاراں میں وہ شیِریِں وہ سُخن اب نہ رہا
خِزاں میں جیسے اُجڑ جاۓ ہر کلی اپنی