Add Poetry

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
 

Rate it:
Views: 294
22 Nov, 2013
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets