دل سے تیری یاد کو نکالوں کیسے
خوشبو کو قفس میں ڈالوں کیسے
اُسے ضد ہے سِرک جانے کی
ریت کو مٹھی میں دبا لوں کیسے
خونِ جگر سے سینچا ہے جوگلشن
اپنے ہی ہاتھوں سےجلا لوں کیسے
دھڑکنا بھول گیا تیرے جانے پر
دل تو دل ہے اِسے سنبھالوں کیسے
نگاہِ سوز میں ہے خزاں سی ویرانی
چہرے پہ تبسم کو سجا لو ں کیسے
تجھ سے تقدیر نے ملنے نہ دیا
تیری یاد سے دامن چُھڑا لوں کیسے
سوچتا ہوں دل کے نہاں گوشے میں
تجھے مورت کی طرح چھپا لوں کیسے
اب تو ہر شب ہی شبِ اداسی ہے
جہان ِ سوزمیں دل کولگا لوں کیسے
یہ اشک نہیں تیری یاد کا موتی ہے
پلکوں سے گرا کر مٹی میں مِلا لوں کیسے
ابھی خواب ادھورا ہےکہ خود کو
نیند کی آغوش سے جگا لوں کیسے
ہو ناز تجھے دلِ ناداں کے جنوں پر
تیرے دل میں رضا وہ جگہ لوں کیسے