حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نھیں کرتے
کیوں بیٹھے ہو خاموش سرہانے میرے آکر
یارو میرے جینے کی دعا کیوں نہیں کرتے
پھولوں کی طرح جسم ہے ، پتھر کی طرح دل
جانے یہ حسیں لوگ وفا کیوں نہیں کرتے
ہر بات پرندوں کی طرح اڑتی ہوئی سی
جو بات بھی کرتے ہو سدا کیوں نہیں کرتے
بس مل چکا ثواب بصورت ہمیں عذاب
اتنی وفا کے بعد جفا کیوں نہیں کرتے
زاہد ہی کہہ رہا تھا پلا کر ہمیں شراب
ممکن ثواب میں بھی خطا کیوں نہیں کرتے
لو دیکھو حمیدی لب دریا پہ ہے دریا
پر پیاس ہے کب کی یہ پتا کیوں نہیں کرتے