’ان کہی‘ کی ایک قسط کے آٹھ سو روپے ملتے تھے: شہناز شیخ

شہناز شیخ
  • مصنف, براق شبیر
  • عہدہ, صحافی

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ’ان کہی‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ 1980کے دور میں جب یہ سیرئل نشر ہوا تو اس وقت انھیں ایک قسط کے 800 روپے ملتے تھے۔

ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ’اس دور کے اداکار پیسے کے لیے کام نہیں کرتے تھے۔ کونٹینٹ پر بہت زیادہ انحصار تھا۔‘

پاکستانی اداکارہ شہناز شیخ جو آج بھی ’ان کہی‘ کے کردار ثنا مراد کے لیے جانی جاتی ہیں، ایک دفعہ پھر بہت جلد سکرین پر دکھائی دیں گی۔

شہناز شیخ نے اپنے ایکٹنگ کیریئر کا آغاز 1980 میں کیا۔ گویا ان کا پہلا ڈرامہ چند اقساط سے زیادہ نہ چل سکا۔ ان کا کام اتنا نمایاں ہوا کہ اس کے بعد انھیں ’ان کہی‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

مصنفہ حسینہ معین کی اس تحریر میں ان کے کردار ثنا مراد کو کافی پذیرائی ملی۔

ثنا ایک خود مختار، قابل اور بہادر لڑکی تھی جس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔

آج اس بات کو 40 سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ آج بھی جب ماضی کے مقبول ڈراموں اور کرداروں کا ذکر چھڑتا ہے تو ’ان کہی‘ سرِفہرست ہوتا ہے۔

ان کہی، پی ٹی وی

،تصویر کا ذریعہPTV

،تصویر کا کیپشنپی ٹی وی کا ڈرامہ ان کہی: جاوید شیخ اور شہناز شیخ کی ایک تصویر

’ان کہی ود شہناز شیخ‘

’ان کہی، ’تنہائیاں‘، اور ’انکل سرگم‘ جیسے مقبول ڈرامے کرنے کے بعد شہناز شیخ نے اداکاری کو خیرباد کہہ دیا اور اس کے بعد 30 برس تک ٹیچنگ کی۔

بی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ بچے ہو جانے کے بعد وہ ایک چیز پر فوکس کرنا چاہتی تھیں۔

اب کم از کم دو دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد شہناز شیخ ایک دفعہ پھر سکرین پر بحیثیت ٹاک شو ہوسٹ نظر آئیں گی۔ ’ان کہی ود شہناز شیخ‘ کے نام سے ان کا آنے والا شو پی ٹی وی پر نشر ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ نام پی ٹی وی نے ہی تجویز کیا تھا۔

’انٹرویوز تو سب ہی کر رہے ہیں۔ میری یہ کوشش ہے کہ جن مقبول شخصیات کو اپنے شو پر بلاؤں ان سے یہاں تک پہنچنے کے سفر سے متعلق گفتگو کروں۔ میری گیسٹ لسٹ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن سے بات کرنا بہت ضروری تھا۔ اور ان کی کہانیاں پی ٹی وی کے آرکائیوز کا حصہ بن جائیں گی۔‘

شو کی چند اقساط جو ریکارڈ ہوئی ہیں ان کی جھلک ہم نے انسٹاگرام پر دیکھی۔ ان میں انور مقصود، ثانیہ سعید اور ماورہ حسین کو بطور گیسٹ دیکھا گیا۔

شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ وہ ویسے تو پاکستانی ڈرامے نہیں دیکھ رہی تھیں کیونکہ ان سے ’بیالیس اقساط‘ نہیں دیکھی جاتیں۔ البتہ آج کل وہ اپنے شو کے لیے بہت زیادہ ڈرامے دیکھ رہی ہیں تاکہ انھیں علم ہو کہ کون کیا کر رہا ہے۔

شہناز شیخ نے پہلی دفعہ انٹرویوز کرنا تب شروع کیا تھا جب پی ٹی وی ورلڈ لانچ ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ بحیثیت اداکار ان کے لیے کیمرہ کی طرف دیکھنا مشکل تھا لیکن انھوں نے خود کو اس کے لیے ٹرین کیا۔

’وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنا بہت اہم ہے۔ اچھی چیزیں بھی ہو رہی ہیں، بری چیزیں بھی ہو رہی ہیں۔‘

Instagram پوسٹ نظرانداز کریں
Instagram کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Instagram پوسٹ کا اختتام

ماضی اور حال کے اداکار اور کونٹینٹ

وہ کہتی ہیں کہ ’آج کے اداکاروں کو بہت اچھے پیسے ملتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کے مستحق ہیں یا نہیں۔‘

شہناز شیخ نے اپنے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کہی‘ کی ایک قست کے انھیں 800 روپے ملتے تھے جس میں کپڑا، کھانا اور ٹرانسپورٹ شامل ہوتا تھا۔

’تین سال بعد جب ’تنہائیاں‘ کیا تو ہمارے پیسے بڑھا کر ہزار روپے کر دیے۔ اور یہ میں اے لسٹ اداکاروں کی بات کر رہی ہوں۔‘

’اس وقت کے اداکار پیسے کے لیے کام نہیں کرتے تھے۔ کونٹینٹ پر بہت زیادہ انحصار تھا۔ میرا تعلق اس دور سے ہے جب کوئی برینڈ نہیں تھا سوائے باٹا اور سروس کے۔ جب برینڈ نہیں تھا تو کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ کیا کرنا تھا، پھر اتنے پیسوں کا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے پروڈیوسرز فیصلہ کرتے تھے کہ مصنف کون ہوگا، اداکار کون ہوگا۔ ’آج ملٹی نیشنل بتاتا ہے کہ ان کا سرف بیچنے کے لیے انھیں کس کی ضرورت ہے۔ پی ٹی وی ایجوکیشن اور انٹرٹینمنٹ کو ترجیح دیتا تھا۔ اگر کسی ڈرامے نے پیسہ بنایا تو اچھا ہے، نہیں بنایا تو بھی کوئی بات نہیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔‘

شہناز شیخ

ڈراموں میں خواتین کے کرداروں کی عکاسی

چالیس سال پہلے حسینہ معین نے اپنی تحریروں ’ان کہی‘ اور ’تنہائیاں‘ میں خواتین کو خود مختار اور باشعور دکھایا۔آج اتنے سالوں بعد ان کرداروں کی عکاسی بہترین ہونے کی بجائے بد تر ہوگئی ہے۔ زمانہ جتنی ترقی کر رہا ہے، پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے کردار اتنے ہی پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔

روتی دھوتی، پیٹتی خواتین جو آج ٹیلی ویژن ڈراموں کی زینت بنی ہوئی ہیں ان کے بارے میں شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ آج کل کی یہی ’ڈیمانڈ‘ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل جب کسی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا، ’آپ کیوں دیکھ رہے ہیں؟ آپ کے پاس تو چوائس ہے۔ ہمارے وقت میں تو چوائس بھی نہیں تھی۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ ایسی چیزیں ہوں۔ ہماری قوم کو رونے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ ایک قسم کا کتھارسس ہوتا ہے۔ تو اچھا ہے۔‘

دریں اثنا شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں جس طرح سوشل میڈیا کا بول بالا ہے، یہ دیکھ کر انھوں نے شکر ادا کیا کہ ان کے وقت میں یہ سب نہیں تھا۔

’ہمیں کبھی یہ فکر نہیں تھی کہ کوئی ہمیں ریکارڈ کر رہا ہے۔ کلاس میں جب کیمرہ نکلتا تھا تو سب کو پتہ چل جاتا تھا کیونکہ صرف ایک بندے کے پاس کیمرہ ہوتا تھا۔ اب تو پرائیوسی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔‘

’لیکن جو معلومات آپ کو سوشل میڈیا سے ملتی ہے وہ کمال ہے۔ اب آگے میری جتنی بھی زندگی رہ گئی ہے وہ میں سوشل میڈیا کہ بغیر تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں ٹک ٹاکرز کو بھی دیکھتی ہوں، ریلز بھی دیکھتی ہوں۔‘

شہناز شیخ جو بہت جلد ’ان کہی ود شہناز شیخ‘ میں نظر آئیں گی، اس وقت اپنی ’ریٹائرڈ لائف‘ انجوائے کر رہی ہیں۔