انڈیا میں ’ایوانِ صدر کی روح‘ مغل گارڈن کا نام تبدیل: ’کیا بی جے پی تاج محل کا نام بھی بدل دے گی؟‘

former pres

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, مرزا اے بی بیگ
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

انگریزی کے معروف شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے رومیو جولیٹ میں لکھا ہے کہ ’نام میں کیا رکھا ہے؟ گلاب کو کسی دوسرے نام سے پکاریں گے تو کیا اس کی خوشبو اتنی ہی بھینی نہیں ہو گی؟‘

لیکن انڈیا میں نام بدلنے کی مہم جاری ہے اور گذشتہ دنوں دارالحکومت دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) کے مغل گارڈن کا نام بدل کر ’امرت اددیان‘ رکھ دیا گیا ہے۔

جہاں بہت سے لوگ انڈیا کی آزادی کے 75 ویں سال میں جاری ’امرت مہوتس‘ (جشن امرت) کے تعلق سے مغل گارڈن کا نام بدلے جانے کی تعریف کر رہے ہیں وہیں بہت سارے لوگ اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور رواں حکومت میں نام بدلنے کی مہم کا مذاق اڑاتے ہوئے میمز شیئر کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ہندی اور انگریزی دونوں زبان میں ہیش ٹیگ ’مغل گارڈن‘ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اس کے ساتھ راشٹرپتی بھون بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

مغل گارڈن

،تصویر کا ذریعہ@girirajsinghbjp

انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انڈین صدر کی ڈپٹی پریس سکریٹری نویکا گپتا نے کہا کہ ملک کی آزادی کے 75 سال کے موقع پر راشٹرپتی بھون کے تمام باغات کو ’امرت اددیان‘ کہا جائے گا۔

بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے اس خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’امرت کال میں ’غلامی کی ذہنیت‘ سے باہر آنے کے لیے مودی حکومت کا ایک اور تاریخی فیصلہ۔۔۔ راشٹرپتی بھون میں واقع ’مغل گارڈن‘ اب ’امرت اددیان‘ کے نام سے جانا جائے گا۔‘

مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے مغل گارڈن کا نام تبدیل کرنے پر ایک ویڈیو بھی ٹویٹ کی ہے۔ ویڈیو میں کچھ ملازمین امرت اددیان کا بورڈ لگا رہے ہیں۔

مغل گارڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مغل گارڈن کیسا ہے؟

راشٹرپتی بھون کی ویب سائٹ کے مطابق یہ باغ 15 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جسے صدارتی محل کی روح کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مغل گارڈن جموں و کشمیر کے مغل باغات، تاج محل کے ارد گرد کے باغات، ہندوستان اور پیرس کی منیئیچر پینٹنگز سے متاثر ہے۔

سر ایڈون لوٹینز نے سنہ 1917 میں مغل باغات کے ڈیزائن کو حتمی شکل دی تھی۔ اسے سال میں ایک بار عوام کے لیے کھولا جاتا ہے اور رواں سال 31 جنوری سے اسے عوام کے لیے کھولا جا رہا ہے۔

جہاں حکمراں جماعت بی جے پی نام بدلنے کے اس عمل کو تاریخی قرار دے رہے ہیں وہیں حزبِ اختلاف کی پارٹی کانگریس نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مغل گارڈن میں دنیا کے تمام معروف پھولوں کی موجودگی اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے اور یہ باغ ان پھولوں کی خوشبو سے معطر رہتا ہے۔

یہاں ہالینڈ کے ٹیولپس ہیں۔ برازیل کے آرکڈز، جاپان کے چیری کے پھول اور دیگر موسمی پھولوں کے ساتھ چین سے لائے جانے والے کنول کے پھول بھی ہیں۔

یہاں مغل طرز کی نہریں، چبوترے اور پھولوں کی کیاریاں، یورپی پھول، لان اور سکون بخش باڑوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔

لان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حزب اختلاف کی تنقید اور سوشل میڈیا

کانگریس رہنما راشد علوی نے پوچھا ہے کہ ’حکومت مغل گارڈن کا نام کیوں بدل رہی ہے؟ کیا اسے بی جے پی نے بنایا تھا؟ راشٹرپتی بھون کو بھی انگریزوں نے بنایا تھا، کیا آپ اسے بھی گرا دیں گے؟ کیا آپ لال قلعہ اور تاج محل کا نام بھی بدل دیں گے؟ جہاں وزیر اعظم رہتے ہیں اسے بھی انگریزوں نے بنایا تھا، کیا اس کو بھی گرا دیا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کو اپنا گارڈن بنانا چاہیے۔ دوسری حکومت آئے گی تو وہ بھی نام بدل سکتی ہے۔

مغربی بنگال میں برسراقتدار پارٹی ترنمول کانگریس کے رہنما ڈیریک او برائن نے کہا کہ ’کون جانتا ہے کہ وہ اب ’ایڈن گارڈن‘ کا نام بدل کر ’مودی گارڈن‘ کہنا چاہیں۔ انھیں نوکریاں پیدا کرنے، مہنگائی کی روک تھام اور ایل آئی سی جیسے قیمتی وسائل کو بچانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

اے این آئی کے مطابق بی جے پی سے تعلق رکھنے والے مغربی بنگال میں حزب اختلاف کے رہنما سوویندو ادھیکاری نے کہا ہے کہ ’انھوں نے اتنے ہندوؤں کا قتل کیا، اتنے مندروں کو تباہ کیا۔ صرف مغل گارڈن ہی نہیں بلکہ پورے دیس سے ان کا نام ہٹا دینا چاہیے۔ بنگال میں بی جے پی کی حکومت آئے گی تو ایک ہفتے میں انگریزوں اور مغلوں کا نام ہٹا دے گی۔‘

بہرحال سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام نے بھی اس کے متعلق اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔

شاعر اور رکن پارلیمان عمران پرتاپگڑھی نے طنز کرتے ہوئے  ٹویٹ کیا کہ ’اڈانی کے شیئر گر رہے تھے اور سرکار کی ساکھ بھی۔

’اس سب سے پریشان عوام کو سرکار نے فوری طور پر راحت دیتے ہوئے مغل گارڈن کا نام بدل کر ’امرت اددیان‘ کر دیا ہے۔‘

صحافی شیام میرا سنگھ نے لکھا کہ ’بھینس کو چرانے والے اپنے ایک آدمی کو بھینسوں کی گھنٹی لے کر دوسری سمت میں بھگا دیتے تھے اور خود بھینسوں کو لے کر دوسری سمت میں چلے جاتے تھے۔

’گاؤں والے گھنیوں کی آواز کے پیچھے بھاگتے تھے اور چور دوسری سمت سے بچ نکلتے تھے۔ ایسے ہی مودی ہے۔ اڈانی کی جانچ کروانے کی بجائے مغل گارڈن کا نام بدل رہے ہیں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

سواتی مشرا نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’مغل گارڈن کا نام بدلنے میں حکومت نے نو سال لگا دیے جبکہ یہ جگہ تو ان کے سب سے قریب ہے۔

’حکومت کو ایک نام رکھنے والی وزارت بنانی چاہیے تو ہی جلدی نام بدل پائيں گے۔ جگہوں کے نام بدل جائيں تو اس وزارت کو بچوں کے نام رکھنے کا کام دیا جا سکتا ہے۔ ابھی تو حکومت یہی کر رہی ہے۔‘

اسی طرح صحافی دلیپ منڈل نے لکھا: ’راشٹرپتی بھون کے مغل گارڈن کو انگریزوں نے بنایا تھا۔ مغل گارڈن کا نام بھی انھوں نے ہی دیا تھا۔ دلی انگریزوں نے مغلوں سے چھینی تھی۔ دنیا میں انگریزوں کا سکہ چلتا تھا لیکن اپنے باغیچے کا نام مغل گارڈن رکھا۔ مغل طرز کی وجہ سے۔ اس میں ان کی کمزوری نہیں طاقت کا مظاہرہ ہوا۔‘

سیما سینگپتا نے لکھا کہ ’میرے لیے صدر مرمو کا راشٹرپتی بھون کی روح مغل گارڈن کا نام بدلنا ایسا ہے جیسے کہ کوئی مہمان میزبان کے گھر کا نام بدل دے کیونکہ وہ اس محل کے مہمان خانہ میں رہتی ہیں۔

’سچ تو یہ ہے کہ ایک برٹش ماہر فن تعمیر نے اس شاندار باغ کے تصور کو زمین پر اتارا، ہم صرف اس کا نام بدل کر اس کے کریڈٹ کو ہڑپ نہیں سکتے۔‘

بہر حال انڈیا میں ناموں کے بدلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے قبل اس کے آگے والی سڑک راج پتھ کا نام بدل کر کرتویہ پتھ رکھ دیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل اس کے قریب ہی اورنگزیب روڈ کا نام بھی بدل دیا گیا تھا۔

ابھی حال ہی میں تقریباً ایک ہفتے قبل وزیراعظم مودی نے انڈمان اور نکوبار جزائر میں 21 جزیروں کو نئے نام دیے۔ جس میں راس آئیلینڈ کو نیتا جی سبھاش چندر بوس جزیرہ کہا گیا اور ہیولاک اور نیل جزائر کو سوراج اور شہید جزائر کا نام دیا گیا۔