قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل منظوری کے لیے پیش کر دیا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں جاری اجلاس کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ترمیم میثاق جمہوریت میں طے شدہ اصولوں کے مطابق تیار کی گئی ہے اور اس میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت دیگر اہم شقیں شامل ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے دوران کچھ ایڈجسٹمنٹ کی گئیں جبکہ آئینی ترامیم ہمیشہ اکثریت کی حمایت اور اتفاق رائے سے کی جاتی ہیں۔
وزیر قانون نے بتایا کہ بل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہوا تھا اس دوران اپوزیشن کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آئینی معاملات کے لیے آئینی عدالتیں ہوتی ہیں اور دیگر ممالک میں ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ ترمیم کے بعد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔ اب آئینی عدالت وہی اختیارات حاصل کرے گی جو پہلے آئینی بنچز کے پاس تھے جبکہ سپریم کورٹ دیوانی مقدمات سمیت کل 62 ہزار سے زائد مقدمات سننے کی ذمہ داری رکھے گی۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ ترمیم کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ موجودہ عدالتی کمیشن اور آئینی عدالت کے سربراہ ہوں گے اور بعد ازاں سب سے سینئر جج آئینی فورمز کی سربراہی کرے گا۔
انہوں نے سابقہ سو موٹو اختیارات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اس اختیار کا ناجائز استعمال ہوتا رہا لیکن اب اس کا طریقہ کار واضح طور پر قانون میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ترمیم فیڈریشن میں برابر کی نمائندگی یقینی بنائے گی صوبوں کے آئینی معاملات اور دیگر اہم مقدمات آئینی عدالت کے دائرہ کار میں آئیں گے، جبکہ عام شہریوں کے کیسز کا سپریم کورٹ میں مناسب وقت پر فیصلہ ممکن ہوگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ نے 27 ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا تھا جس میں 64 ووٹ حق میں اور کسی بھی ووٹ کی مخالفت نہیں ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، تاہم پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے احمد خان نے پارٹی پالیسی کے خلاف حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔