سندھ میں تعلیم کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریاں

کہا جاتا ہے کہ بند ذہین ہر طرح کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ غلامی ایسی ذہینی بیماری ہے جو انسان سے اس کی اپنی ذات پر سے اس پر اعتماد اور کچھ کر نے اور آگے بڑھنے کی لگن کو ختم کر دیتی ہے۔ تعلیمی اصلاحات کے لئے کام کرنے والے ایک غیر منافع بخش تنظیم الف اعلان (Alif Ailaan) کی شائع رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کی تعلیمی پوزیشن سات نمبر پر ہے۔ او ر صوبہ سندھ فاٹا سے صرف ایک نمبر اوپر ہے۔فاٹا کی تعلیمی پوزیشن آخری نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ نے حکومت سندھ کی تعلیمی ایمرجنسی کی قعلی کھول دی۔ اور اس پہلے بھی کئی اداروں کی رپورٹ نے سندھ میں تعلیمی صورت حال کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔سندھ حکومت سند ھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے ہزاروں اسکولوں کو بنیادی سہولیات دینے سے محروم ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف ادراہ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے 50فیصد بوائز اور 47فیصد گرلز اسکولز بیت الخلاء کی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ رپورٹ کے مطابق 53 فیصد بوائز اور 54 فیصد گرلز پرائمری اسکولز پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ کراچی تا کشمور ہزاروں سے زائد اسکولز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ عمر کوٹ، میرپورخاص، مٹیاری، سانگھر، تھرپارکر کے اسکولوں کی حالتیں بہت زیادہ خراب ہیں۔ اور یہ ہی نہیں سندھ کے دوسرے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں بچے کُھلے آسمان اور خستہ تباہ حال اسکولز کی عماروں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ، جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہزاروں معصوم بچے خوف کے عالم میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ سندھ میں موجودہ تعلیمی صورت حال کی بڑی وجہ نااہل انتطامیہ ہے۔ جن میں جعلی ڈگریوں والے ہمارے نمائندے بھی شامل ہے جنہوں نے ہمارے صونہ کا تعلیم نظام کا ستیاناس کر دیا ہے۔وزارء اپنی مراعات اور اپنے ذاتی مفاد کے لیئے اسمبلیوں میں بل پاس کرا لیتے ہے مگر افسوس تعلیمی ٓاصلاحات کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کرتے اور سرکاری افسران جو تنخواہ تو سرکاری لیتے ہے لیکن اپنے بچوں کو پرایؤٹ اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔حکمران اپنے شاہانہ خرچ کے بجائے سندھ میں تعلیم کی بہتری پر توجہ دیں۔حکومت سندھ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیم کے فروغ کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ملکی ترقی کے عمل کی تکمیل کے لیے ہم اپنی آنی والی نسلوں کو زیور تعلیم سے ٓراستہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیم کے فروغ کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

M Nasir Iqbal
About the Author: M Nasir Iqbal Read More Articles by M Nasir Iqbal: 13 Articles with 23696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.