پنجابی زبان کو اسکا حق کب دیا جائے گا……؟؟؟؟

یہ اکتوبر1977 کی بات ہے۔میں سکھر میں مقیم تھا، گھنٹہ گھر چوک سکھر میں حبیب بنک کے باہر اور گھنٹہ گھر کے سامنے یونائیٹڈ بکسٹال تھا۔ اقتدار الدین شیخ اس کے مالک تھے آجکل یہ بکسٹال مہران مرکز میں منتقل ہوچکاہے۔ سکھر مقیم ہونے کے بعدصبح سویرے حسب عادت پہلی بار جب میں اخبار پڑھنے وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ اردو اخبارات بارہ بجے کے بعد آتے ہیں کیونکہ اردو اخبار کراچی سے شائع ہوتے تھے۔ البتہ سندھی اخبارات سندھ نیوز، عبرت اور چند ایک دوسرے بھی سندھی اخبارات سورج کے آنکھ کھولنے سے قبل سکھر کے بکسٹالز پر موجود ہوتے ۔

اسی طرح 1978 کے اوائل میں کوئٹہ میں چند ماہ قیام کرنے کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ وہاں سے بھی بلوچی زبان میں ایک دو اخبار (میں اخبار ہی کہوں گا) شائع ہوتے ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم کو قتل کرنے کے چند روز پہلے میں پشاور میں تھا اور پھر لاہور پریس کلب کے پہلے صدر سید ناصر نقوی کی قیادت میں صوبہ خیبر پختونخواہ( تب صوبہ سرحد) کے مطالعاتی دورے کے دوران بھی صوبہ بھر میں پشتو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد دیکھنے اور پڑھنے کا موقعہ ملا ۔ ان تمام واقعات و حالات سے دل میں خوشیوں کے میلے لگے اور دکھ و کرب سے بھی گزرنا پڑا۔ کوشی اس بات کی کہ سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام اور حکمران اپنی مادری زبانوں سے محبت و الفت کرتے ہیں۔جبکہ پنجاب کے عوام اور حکمرانوں کو اپنی مادری زبان سے محبت نہیں نفرت ہے۔

پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں کے وزرائے اعلی عوامی اجتماعات اور کابینہ کی میٹنگز میں گفتگو سندھی بلوچی اور پشتو میں کرتے ہیں۔ ملک بھر میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو سندھی ملتے ہیں تو انہوں نے بات چیت کے لیے سندھی زبان کو اپنانے کو ترجیح دی۔ بلوچی عوام بول چال کے لیے بلوچی میں اظہار خیال کرنے پر فخر محسوس کیا۔ پختون پشتو میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔سندھی ،بلوچی اور پشتون عوام کی اپنی زبان اور ثقافت سے محبت کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے سال کے 365 دنوں میں سے ایک ایک دن کو اپنی ثقافت کا دن منانے کے لیے مختص کیا ہوا ہے ۔ جسے ’’سندھی ثقافت ڈے ‘‘ ’’ بلوچ ثقافت ڈے ‘‘ اور پختون کلچر ڈے ‘‘ سے منسوب کر رکھا ہے ۔ تینوں ثقافتیں اپنے یہ ایام بڑی دھوم دھام سے مناتی ہیں۔ لیکن ہم پنجابی اپنی زبان اور کلچر سے ست بیگانوں جیسا سلوک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پنجابی خود کو مہذب اور تعلیم یافتہ ظاہر کرنے واسطے اول تو اردو زبان کا استعمال کرنا واجب خیال کرتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ کا مہذب پن دکھانا مقصود ہو تو اردو میں انگریزی کی ٓمیزش کرلیتے ہیں۔وقفے وقفے سے پنجاب میں پنجابی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن پنجاب کی دھرتی پر جنم لینے،اسکا کھا پی کر پلنے بڑھنے والے بیوروکریٹس نے ہمیشہ اسکی مخالفت کی۔ پنجاب اسمبلی کے سوا باقی صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کو اپنی مادری زبانوں میں تقاریر کرنے کا حق حاصل ہے مگر پنجاب اسمبلی کے اندر پنجابی بولنا ممنوع ہے۔

مجھ سمیت پنجاب دھرتی ماں کے بیٹے اسکی حق تلفی پر سراپا احتجاج ہیں۔ محمد مزمل رفیق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور ضلع ننکانہ کے ایک بنیادی مرکز صحت میں انسانی زندگیاں بچانے کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہوں نے میرے نام ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ ’ ’ ’’ہم بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ جو قوم اپنے اباؤ اجداد سے جڑی رہتی ہے وہ زندہ رہتی ہے۔آج مصر سے لیکر یونان تک عظیم الشان تہذبیں تباہ حال ہیں جن کا کسی زمانے میں دنیا میں ڈنکا بجتا تھا۔
ع…… مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے

سندھی اجرک اورٹوپی ڈے کا سن کر آج دل جتنا خوش ہوا اتنا ہی اداسی کے سمندر میں غرق بھی ہوا۔ سوچوں میں گم ہوں کہ آج میرے پنجاب کا برا حال کیوں ہے؟ آج کوئی پنجاب کی ثقافت اور پنجابی کلچر ڈے کیوں نہیں مناتا؟ پنجابی اپنی شان والی پگڑی کا ڈے منانے کی بات کیوں نہیں کرتا؟‘‘ محمد مزمل رفیق سوال کرتا ہے پنجاب کے ادیبوں ،دانشوروں اور حکمرانوں سے کہ وارث شاہ اور بھلے شاہ کا پنجاب آج یتیم کیوں ؟محمد مزمل رفیق لکھتا ہے کہ گوجرانوالہ میں جنم لینے والی امرتا پریتم آج زندہ ہوتی تو ضرور پنجاب اور پنجاب کی ثقافت کا حال دیکھ کرایکبار پھر وارث شاہ کومخاطب کرکے کہتی’’ اج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول‘‘

واقعی محمد مزمل رفیق کے الفاظ خون کے آنسو رو رہے ہیں، پنجابی زبان اور پنجاب کی ثقافت کو اسکی اپنی دھرتی میں بیگانہ بناکر رکھ دیا گیا ہے مجھے خود سمجھ نہیں آرہی کہ پنجاب کی انخی ماؤں کا دودھ پی کر جوان ہونے پنجابی بولنے ،پنجابی لکھنے اور اسکا پرچار کرنے سے سے کیوں کتراتے ہیں؟ حکمرانوں کی پرابلم تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پنجابی عوام کا پنجابی سے سوتیلی ماؤں جیسا برتاؤ سمجھ سے بالاتر ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے دباؤ پر مادری زبانوں کی ترویج کا کچھ نہ کچھ سلسلہ چل نکلا ہے امید رکھنے چاہیے کہ پلاگ نامی ادارہ جس کی سربراہ صغراء صدف جیسی پنجابی ادب کی لکھاری ہیں وہ پنجابی زبان کو اسکا مقام دلانے کی کوشش ضرور کریں گی اور پنجاب کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے کی کوششوں میں مصروف عمل تنظیموں کی حوصلہ افزائی کریں گی اور پنجابی ثقافت کا ڈے منانے کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کراکر پنجاب کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھاری تنخواہ وصول کا حق ادا کریں گی۔ محمد مزمل رفیق سے کہنا چاہوں گا کہ وہ بھی حالات سے نامید نہ ہوں انشاء اﷲ پنجاب کی ثقافت اور زبان کو اسکا مقام مل کر رہے گا۔۔۔ پنجابی عوام زندہ باد پنجابی ثقافت پائیندہ باد
 

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 143731 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.