پانی کا مسئلہ

﴿ بسم اﷲ الر حمان الر حیم ﴾
پا نی کے مسئلے اور اس کی نو عیت پر ہر پہلو سے اظہار خیال ہو رہا ہے۔پا نی زندگی اور ہما ری معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔دنیا میں موجود آبی زخائر کا صرف ایک فیصد پانی پینے کے لیے دستیاب ہے۔صاف پانی کی فراہمی دن بدن کم ہو رہی ہے جس کی وجہ انسانی سر گرمیاں ہیں۔دوسری طرف پانی کے زخائرمیں کمی سے زراعت اور اس سے وابستہ صنعتوں کامستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔پانی کا

مسئلہ نہ صرف ہمارے دشمنوں کا پیدا کردہ ہے بلکہ اس مسئلہ کو حکمرانوں کی نا اہلیوں اور چشم پوشیوں نے مزیدگھمبیر کر دیا ہے ۔پانی کی بندش ،ڈیموں کی کمی،پانی کے زخائر کی نا قص منصوبہ بندی اور جاری آبی منصوبوں کی سست روی ، ایسے عوامل ہیں جن کی بدولت ملک کی ترقی جامد ہو کر رہ گئی ہے۔ پا نی کے مسئلے کا آغاز صدر ایوب کے دور کے بعد ہوا۔ورلڈ بنک کی مداخلت پر اس مسئلے کو سند ھ طاس معاہدے کی شکل میں طے کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کر لیا گیا ہے اور ہمارے حکمر ان خواب خرگوش کے مزے لینے لگ گئے جبکہ اس کے بر عکس بھارت نے اپنی آبی منصوبہ بند ی کر کے لگ بھگ باسٹھ کے قریب ڈیمز تعمیر کر لئے اور اپنے پانی کے مسئلے پر قابو پا لیا جبکہ ہمارے ا رباب اقتدار ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ڈیم بننے چاہیے یا نہیں۔

موجودہ حالات میں وطنِ عزیز کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ پا نی کا ے۔آنے والے چند سالوں میں یہ مسئلہ شدت اختیار کر سکتا ہے بعد ازاں اس سے توانائی کا بحران اپنی آخری حدوں کو چھو سکتا ہے۔توانائی کے متبادل زرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دستیاب وسائل میں سے کوئلہ اور پانی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ ان دو وسائل میں سے پانی نہ صرف سستا زریعہ ہے بلکہ اس کی لاگت بھی کم ہے۔دنیا میں اس وقت ترقی یافتہ ممالک پن بجلی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جس کی واضعمثال چین میں زیر تعمیر تھری گارجز ڈیم ہے جس سے 18000میگا واٹ بجلی پیدا کی جا ئے گی۔پن بجلی 30پیسے فی یونٹ سے 90 پیسے فی یونٹ کے خرچ سے پیدا کی جا تی ہے جبکہتھرمل بجلی کا خرچ3 روپے فی یو نٹ ہے۔پاکستا ن میں آبی زخائر کی کمی نہیں ہے۔صرف دریائے سندھ میں پا نی کا زخیرہ تقریباــ 60 ملین ایکڑ سے زیادہ ہے جس میں سے 34 ملین ایکڑ تک پانی کوزخیرہ کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کا صرف 14فی صد پانی زخیرہ کیا جا تا ہے اور باقی86 فی صد پانی سمندر کی نذر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے اور زراعت کی ترقی کے لئے وسیع نہری نظام موجود ہے۔ 34 آزاد نہریں ، چھوٹے بڑے 19 بیراج ، 15 ڈیمز ، 16 دریا اور58500 کلومیٹر لمبی آبی گذرگاہیں موجودہیں جن سے تقریبا 3کروڑ ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا ہے۔ہماری معیشت کی ترقی اور بقا آبی وسائل کی دستیابی پر منحصر ہے چنانچہ مستقبل میں پانی ہمارے ملک کی ترقی و خوشحا لی کے لئے وہی کردار ادا کرے گا جو عربوں کے لئیتیل نے ادا کیا۔

اچھی منصوبہ بندی اور حقیقت پسندانہ پالیسی سازی سے ہی بہتر نتائج نکل سکتے ہیں ۔جس ملک میں ایٹم بم بنانے والے موجود ہوں وہاں پانی کا مسئلہ کوئی بڑا مسئلہنہیں یہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے آغاز پر کٹ زرہ کے مقام کو قدرتی ریزروائر بنا کر تربیلا ڈیم سے بھی بڑا ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ پہاڑی چشموں اوربلندی پر موجود آبی گذر گاہوں پر درجنوں چھوٹے ڈیمز بنا ئے جا سکتے ہیں۔ضرورت صرف احساس کی ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
زر ا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Asghar Rathore
About the Author: Asghar Rathore Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.