لڑاکاشوہر(بحثیہ)

 سارا دن کام کاج میں مصروف رہنے والا شوہر شام کے کھانے پر اپنی تابع فرمان ، سمجھ دار بیوی سے یوں زبانی جنگ میں مصروف ہو جاتا ہے جیسے وہ سارے دن کی ناکامیوں کا بدلہ اسی ایک’ جان‘ سے لینا چاہتا ہو۔ جیسے باہر ہونے والا سب اچھا برا، بیوی کی وجہ سے ہوا ہے۔
شوہر: میتھی کی ہنڈیا میں جو آلو ڈالے ہیں وہ میں نے کہا تھا کہ چھوٹے چھوٹے کرنے ہیں، کیوں نہیں کئے؟
بیوی : بچوں کو بڑے آلو پسند ہیں، اس لئے نہیں کئے وہ کہتے ہیں آلو بڑے بڑے رکھا کریں۔
شوہر: نہیں تم بکواس کرتی ہو، میں ایسے جواب نہیں سننا چاہتا، تمہیں عقل کب آئے گی۔ میں نے ہزار بار کہا ہے کہ ہنڈیا میں آلو چھوٹے چھوٹے کر کے ڈالا کرو۔ میرا دل کرتا ہے تمہیں خوب پھینٹی لگاؤں ، تمہیں ایسے عقل نہیں آئے گی۔ تمہیں کسی نے مت ہی نہیں دی، بس ایسے ہی اتنی بڑی ہو گئی ہو۔ کبھی دماغ سے سوچنے کا کام ہی نہیں لیا۔ پتہ نہیں کھوپڑی میں دماغ ہے بھی یا نہیں۔ آئندہ سے کبھی ایسا کیا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔
بیوی : میں نے ایسا کیا کر دیا ہے، چھوٹے آلو بس بچے نہیں کھاتے، اس لئے میں نے انہیں چھوٹے نہیں کیا۔
شوہر: بس چپ ہو جاؤ تم۔ بس تم نے مجھے غصہ چڑھا کے ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ سارے دن کا تھکا ٹوٹا انسان گھر واپس آتا ہے تو آگے سے بے مزہ کھانا اس کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جسے کھانے کیا ، دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔
بیوی : آلو بڑے ہیں تو کیا ، آخر چھوٹے کر کے ہی تو کھانے ہیں۔ آپ کھاتے ہوئے انہیں چھوٹا کر کے کھا لیں ، اس میں لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
شوہر: واہ بڑی آئی مجھے سمجھانے والی۔ عقل خود کو نہیں اور اوپر سے مجھے ہی لیکچر دینا شروع کر دیا۔ کیا میں کوئی کل کا بچہ ہو کہ مجھے تم جیسی پاگل سمجھانے بیٹھ گئی ہو جسے ٹھیک سے منہ دھونا نہیں آتا۔ میرے ساتھ ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ میں تمہیں بڑی مشکل سے برداشت کر رہا ہوں۔ کئی بار تو مجھے اتنا غصہ آ جاتا ہے کہ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں پاگل ہی نہ ہو جاؤں۔ کہیں میرے دماغ کا کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ لیکن تمہیں پھر بھی عقل نہیں آتی۔ اگر دنیا کے کسی بازار میں عقل بکتی ہوتی تو میں تمہیں ضرور لا دیتا اور سکون پاتا۔ اب قسمت ہی ہے ایسی کہ تم جیسی سے باندھ دیا ہے نہ جینے کا مزا نہ مرنے کا غم۔
بیوی : میں نے کون سی ایسی غلطی کر دی ہے کہ آپ خواہ مخواہ چیختے چلے جا رہے ہو۔
شوہر: ابھی اور کوئی غلطی باقی رہتی ہے جو نہیں کی۔ اور کیا کرو گی۔ اب اس گھر کو آگ لگانے والی رہ گئی ہے وہ بھی لگا دو ۔ میرے دل کو جلا کر کوئلہ تو تم نے پہلے ہی کر دیا ہے۔ میرے دل کا ہر ارمان جل کر بھسم ہو چکا ہے۔ اب تو میرا اپنا کسی کام کے کرنے کو دل نہیں کرتا۔ بس بچوں کی خاطر صبح سے شام اور شام سے صبح کرتا پھرتا ہوں ، بس اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ پر تم سے مجھے کوئی امید نہیں رہ گئی۔ تم ایک لا علاج بیماری ہو جو مجھے چمٹ گئی ہو اور اب میں کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ ہائے قسمت۔۔
بیوی : علاج کراؤ تم اپنے دماغ کا ، میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ میں اپنا کام اچھی طرح جانتی ہوں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔
شوہر: ’ مجھے کوئی مسئلہ نہیں‘۔۔۔ مسئلے تو سارے مجھے ہیں ۔ تمہیں کوئی مسئلہ کیوں ہو ۔ تم تو خود ایک مسئلہ ہو ۔ مسئلہ فیثا غورث سے بھی بڑا مسئلہ ہو ۔ فیثا غورث بھی تمہارا کوئی سلوشن نہ نکال پاتا اور اپنا سر پیٹتا ہوا مر جاتا۔ تم کسی سے سلجھنے والی کب ہو، اگر سلجھنے والی ہوتی تو سلجھ جاتی۔ تم تو بس میرا ستیا ناس کر کے ہی رہو گی۔
بیوی : بس آپ تو ہر روز مجھ میں کیڑے نکالنے پے ہی تلے ہوئے ہو۔ میں گھر کا نقصان بھی کیا کرتی ہو۔ ہر وقت گھر کی بچت کرنے کا سوچتی ہوں ، بچوں کے ساتھ کھپ جاتی ہوں، اپنی امی کے گھر بھی مہینے بعد جاتی ہوں ۔ پھر بھی آپ مجھے ستاتے رہتے ہو۔
شوہر: ہا ں!ہاں! میں ستاتا رہتا ہوں ، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اسے کہتے ہیں ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔سارا دن چارپائی توڑتی رہتی ہو ۔ سارا دن کھانے پینے، سونے جاگنے کے سوا اور کام ہی کوئی نہیں۔ ایک ہم کہ صبح سے شام کرتے کرتے ہفتے گزر جاتے ہیں اور سیچرڈے مشکل سے آتا ہے۔ سنڈے تو پورے ہفتے سے زیادہ بزی ہوتا ہے۔ ایک منٹ کا آرام بھی نہیں ملتا ۔ کبھی تم نے فریج خراب کر کے رکھی ہوتی ہے اور کبھی واشنگ مشین نہیں چل رہی ہوتی۔ سارا سیاپا مجھے ہی کروانا پڑتا ہے۔ میرا وقت بھی برباد ہوتا ہے اور جیب بھی۔ پورے مہینے کا بجٹ دیوالیہ ہو جاتا ہے اور ہفتے بھر کی تھکاوٹ ایک دن میں ہی ہو جاتی ہے۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہفتہ آیا ہے کہ گیا ہے ۔
بیوی : چلیں آپ کھانا کھا لیں ، پھر میں نے برتن بھی صاف کرنے ہیں ۔
شوہر: بس صفائی کی پڑی ہوتی ہے تمہیں ، جب دیکھو برتن، جب دیکھو کپڑے اور جب دیکھو فرش صاف کر رہی ہوتی ہو۔ بس اور کوئی کام نہیں ہوتا تمہیں۔ مجھے تو تم دھوبن ہی لگتی ہو۔ ہر وقت بس پانی سے کھیلتی رہتی ہو۔ پانی میں تمہارا بڑا دل لگتا ہے۔ جب طبیعت خراب ہو جائے تو ہائے ہائے کرتی چار پائی پے پڑی رہتی ہو۔ ہوش بھی نہیں ہوتا کہ کہاں پڑی ہوں۔ کسی کا کا بھی خیال نہیں رہتا۔ بچوں کو کھانا بھی مجھے ہی کھلانا پڑتا ہے۔جو کہ میرا کام ہی نہیں، میرا کام باہر سے سامان لانا ہے گھر کے اندر میرا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے تمہارا، اور بس تمھارا کام ہے۔ کرو یا نہ کرو ۔ لیکن بچوں کو کھانا مجھے کھلانا ہی پڑتا ہے ۔ کیا کروں ترس آ جاتا ہے۔ لیکن تم پے بہت غصہ آتا ہے۔
بیوی: تو نکال لو غصہ پھر، پہلے کون سی کسر چھوڑتے ہیں آپ۔ میں کل اپنی امی کے گھر جا رہی ہوں۔ کھانا بازار سے ہی لیتے آنا۔
شوہر : بس ہر ہفتے تمھیں امی گھر جانے کی پڑی رہتی ہے۔ کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا ۔ ہر ہفتے مجھے گھر میں اکیلے ہی سونا پڑتا ہے۔ اتنا خوف آتا ہے۔ حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ واقعات بھی بہت ہو رہے ہیں۔ تمھیں میرا کوئی خیال ہی نہیں آتا کہ میں ساری رات اکیلا رہوں گا۔ بندے کو کچھ تو احساس ہونا چاہیئے۔ احساس تو شادی کے دوسرے دن ہی ختم ہو گیا تھا ۔ ویسے بھی عورتیں تو ہوتی ہی خود غرض اور بے حس ہیں۔ میرے دوست بھی سارے اپنی بیویوں کا رونا ہی روتے رہتے ہیں۔
بیوی : کوئی’ چج‘ کے دوست تو بنائیں آپ، سارے کام چور آپ کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔
شوہر : ٹھیک ہے میں سارا دن کام کر کر کے مرنے والا ہو جاتا ہوں۔ اور بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ میرے سارے دوست کام چور ہیں ۔ اب یہی الفاظ رہ گئے تھے میرے سننے والے۔ باقی تو میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ آپ سارا دن گھر میں کام کرتی ہو اور میں سارا دن ہوٹل پر بیٹھا چا ئے پیتا رہتا ہوں۔ میرے جیسا نکما تو دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں ، اور میری بیگم کو دنیا میں سب سے زیادہ کام کرنے والی مس یونیورس کا ٹائیٹل ملا ہوا ہے۔ واہ کیا بات ہے!
بیوی: یہ لیں کھانا کھانا ہے تو کھا لیں نہیں کھانا تو نہ کھائیں۔ میں چلی ہوں سونے، تھکی ہوئی ہوں میں۔
شوہر : لاؤ کچھ تو کھانا ہی پڑے گا ، آخر رات بھی تو بسر کرنی ہے۔ کسی کو کیا۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 280629 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More