میں سلمان ہوں(١٢٩)

پھر سے وہی شام
پھر سے وہی تنہائی
وہ انتظار آنکھوں کا
وہ تھک جانا پلکوں کا
وہ سمٹ جانا یادوں کا
پلٹ جانا لمحوں کا

سلمان بیٹا،،،آج ندا بہت یاد آرہی ہے،،،
سلمان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا،،،سامنے اک بے چین سی ماں کھڑی تھی،،،
جس کے گھر کی رونق دوسرے کے گھر منتقل ہو چکی تھی،،،

سلمان کا دل بھی بھر آیا،،،مگر جلد ہی اس کی مخصوص مسکان لوٹ آئی،،،جس
کے بعد وہ حالات کو قابو کرلینے کا ہنر جانتا تھا،،،
واہ آنٹی واہ،،،پہلے آپ دونوں ماں بیٹی پاکستان انڈیا جیسے بنے ہوئے تھے،،،
اب آپ تو،،،بالکل ہی،،،دکھی آتما سی ہورہی ہو،،،
کہیں کوئی ڈرامہ تو نہیں دیکھ لیا،،،بہو پر ظلم ہورہا ہو،،،آنٹی پلیز یہ ڈرامے نہ
دیکھا کرو،،،ایسا لگتا ہے پورے زمانے کے غم دکھ اک ہی گھر پر حملہ آور
ہوئے جارہے ہوں،،،
سلمان کی بناوٹی بازلہ سنجی عروج پر تھی۔۔

پر بانو کو بس ندا ہی یاد آرہی تھی،،،بانو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے،،،
رنجیدہ لہجے میں بولی،،،سلمان اللہ تجھے چار بیٹیاں دے،،،سب کی سب
ندا کی طرح ہوں،،،
پھر بانو اک دم سے مسکراکر بولی،،،ہم ماں باپ تھے ندا کے ،،،شکل تو ہمارے
جیسی ہی تھی،،،مگر عادتیں بالکل تم پر گئیں تھی،،،

تم مجھ سے بحث کرتے ہو تو لگتا ہے ندا بول رہی ہے،،مگر میں ندا کو تمہارے
حوالے کرکے چلی جاتی تھی،،،پتا نہیں کیا گیڈر سنگھی ہےتمہارے پاس ،،،کہ
تھوڑی دیر میں ہی ایسے مان جاتی تھی،،،جیسے تم اس کا پیر اور وہ مریدنی ہو،،
ویسے اک بات تو ندا کے ابا بھی بولتا ہیں،،،کہ ندا اور سلمان دونوں ملنگ ہیں،،،

سلمان نے بانو کو ٹوٹے ہوئے دیکھا،،تو بہت ہی نرم لہجے میں بانو کی طرف دیکھ
کر بولا،،،آپ خوش نصیب ہو ندا جیسی بیٹی ملی آپ کو،،،امجد سا داماد بھی
لاکھوں میں اک،،،سیدھا سادھا گھر گرہستی والا،،،انسانوں کی قدر کرنے والا،،،اک
بوڑھی سی ساس آج ہے کل نہیں ہوگی،،،
ندا نے ہی سارا گھر بار سنبھالنا ہیں،،،اور ندا بہت قابل سمجھ دار اک اچھا دل
رکھتی ہے،،،
زمانے کی اونچ نیچ کو بہت سے لوگوں سے بہتر سمجھتی ہے۔

بانو سلمان کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی،،،بیٹا میرا دل بہت گھبرا رہا تھا،،،مگر
تم سے بات کرنے کے بعد سارا بوجھ ہلکا ہوگیا،،،
تم منہ سے نہیں دل سے بولتے ہو،،،میں امجد کو فون کرکے ندا سے ملنے
جاؤں گی،،،

سلمان مسکرا کر بولا،،،کیوں نہیں آخر اب وہ ندا کا گھر ہے،،،ضرور جائیے
گا،،،بیٹیاں بہت فخر محسوس کرتی ہیں،،،جب ان کو یاد کیا جائے،،،بھائی
تو بہنوں کا مان ہوتے ہیں،،،
کئی بد بخت ماں باپ کے چلے جانے کے بعد بہنوں کو مڑ کر بھی نہیں
پوچھتے،،،سلمان کی آنکھیں برسنے کو تھیں،،،
وہ اپنے کمرے کی طرف بوجھل قدموں سے چل پڑا،،،،،(جاری)
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1194497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.