ٹیلنٹ والی تعلیم بھی، ضروری ہوتی ہے

کیا ہی اچھا ہو اگرہم اپنے نوجوانوں کو ٹیلنٹ والے راہ کی طرف بھی لگائیں۔ اگر ان کا دل مشکل مضامین یا کلاس میں اچھے گریڈ لانے میں ساتھ نہیں دیتا تو ہم اس کی وجہ تلاش کریں، یہ نہ سوچیں یا کہیں کہ بچہ پڑھائی میں کمزور ہے، دل لگا کر نہیں پڑھتا وغیرہ وغیرہ۔ کیا پتا آپ کابچہ کسی خاص ٹیلنٹ کا مالک ہو اور وہ اس کمال میں اتنا زبردست ہو کہ اپنے ساتھ کے بہترین پڑھنے والوں کو پچھاڑ دے؟

کیا آپ تعلیم شوق سے حاصل کر رہے ہیں؟ یا کیاآپ اپنے شوق والی تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ان دونوں باتوں کے فرق کو سمجھنا اور غور کرنا واقعی بہت ضروری ہے۔ مگر مجھے ان پر بات نہیں کرنی کہ ان کی افادیت پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی بھی لکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ باتیں ان کے لیے زیادہ اہم ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہو یا پھر A/A+ گریڈلے کر اپنے سکول کا نام روشن کرنا ہو۔ لیکن ابھی کے موضوع کا حصہ وہ نوجوان ہیں جو بنیادی تعلیم کے علاوہ کسی خاص خداداد ٹیلنٹ کے حامل ہیں۔ جن کی اکثریت سکول میںB/C گریڈ یا اس سے بھی کم درجہ والی ہوتی ہے۔ جن کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کا ذہن پڑھائی میں نہیں چلتا، کہاں اور کیوں چلتا ہے؟ اس پر بہت کم صاحب شعور والدین اور اساتذہ کرام غورفرماتے ہیں اور جن A/A+ والوں میں ٹیلنٹ کے جراثیم پائے جاتے ہوں، ان میں اکثریت کو یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ بیٹااپنے اس شوق کوشوق تک ہی محدود رکھو بس، تم نے ڈاکٹر/انجینئر وغیر ہ ہی بنناہے بس! اور وہ اسی تعلیم کو ہی شوق بنانے میں جت جاتا ہے یا اپنے والدین، رشتہ دار یا احباب کے مشورہ وشوق سے مشکل مضامین والی تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے اور یہ دونوں کام ہی اس کی اپنی فطرت کے برعکس ہوتے ہیں۔

دوسری طرف وہ والدین بھی ہیں جوسرے سے اولادکو تعلیم دلواتے ہی نہیں ہیں یا ادھوری چھڑوا دیتے ہیں۔ چلیں مانا کہ آپ کی کوئی مجبوری سہی، ضد یا بے شعوری سہی، مگر بنیادی تعلیم نہ سہی، مگر اولاد کے فطری ٹیلنٹ کے آگے دیوار تو کھڑی مت کریں نا؟ کسی کھیل میں اچھا ہے، اچھی آواز کا مالک ہے، لکھائی میں اچھاہے، تو ان کی ایسی صلاحیت کو استعمال کرنے دیں، مزید بہتری لانے دیں، یقین مانیں! کتنے ہی لاجواب ٹیلنٹ یافتہ دکانوں، فیکٹریوں، ورکشاپز پر ضایع ہو رہے ہیں، اگر وہ اپنا وقت اپنے ٹیلنٹ کو نکھارنے و سنوارنے میں لگا دیں تو کوئی مشکل نہیں کہ اپنی موجودہ کمائی سے کئی گنا زیادہ کمانے لگ پڑیں۔ مگر یہاں کون توجہ دے، کون سمجھائے؟ سب وقتی فائدے کاسوچتے بس کہ کل کیا ہو کس نے ہے جانا؟

کیا ہی اچھا ہو اگرہم اپنے نوجوانوں کو ٹیلنٹ والے راہ کی طرف بھی لگائیں۔ اگر ان کا دل مشکل مضامین یا کلاس میں اچھے گریڈ لانے میں ساتھ نہیں دیتا تو ہم اس کی وجہ تلاش کریں، یہ نہ سوچیں یا کہیں کہ بچہ پڑھائی میں کمزور ہے، دل لگا کر نہیں پڑھتا وغیرہ وغیرہ۔ کیا پتا آپ کابچہ کسی خاص ٹیلنٹ کا مالک ہو اور وہ اس کمال میں اتنا زبردست ہو کہ اپنے ساتھ کے بہترین پڑھنے والوں کو پچھاڑ دے؟ وہ ٹیلنٹ کی وجہ سے ہی والدین، سکول اور باقی دنیا کے لیے باعث فخر بن جائے۔ دنیا بھر میں اور اپنے ہاں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کم وآسان تعلیم یا درمیانے گریڈ کے ساتھ اپنے مثبت ٹیلنٹ کے بل بوتے پر کتنی شہرت، عزت اور دولت کمائی ہے۔

اسی حوالے سے میری تمام والدین اور اساتذہ کرام سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ بچوں کے ٹیلنٹ پر بھی خصوصی توجہ دیں، نظرثانی کریں، بنیادی تعلیم لازمی دلوائیں مگر ان پر تعلیم کا بوجھ نہ ڈالیں، ان کی قدرتی صلاحیتوں کو مرجھا نہ دیں۔ اگر وہ تعلیم میں کم نمبر یا گریڈ لے کر ٹیلنٹ میں اے ون ہے تو اسے روکیے مت، اس کا راستہ بدلیے، اسے آگے بڑھنے دیں، اس کے ساتھ چل کر اس کے ٹیلنٹ کے رستے کو آسان بنائیں،اس کی مزید نکھارنے اور سنوارنے میں مدد کیجیے۔ ان کے ٹیلنٹ کے حساب سے تعلیم دلوائیں، اسی لائن کے ماہر اساتذہ کرام کی شاگردی میں دیں، ویسے ہی کے ماحول وادارے کابندوبست کریں تاکہ ہمیں بہتریں ومنفرد کھلاڑی، لکھارٰی، شاعر،مقرر، فنکار، پینٹر وغیرہ مل سکیں جس کی پاکستان کواشد ضرورت ہے کہ ایسے لوگ ہی ملک کے سفیر بھی ہوتے جو اپنی مثبت ومنفردپہچان سے دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے۔ اس لیے اگرآجکل ہمارے نوجوان ٹیلنٹ والی تعلیم کے ساتھ صرف لازمی بنیادی تعلیم یا آسان مضامین والی/ آرٹس تعلیم ہی حاصل کریں تواس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ بقول اقبال صاحب
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا ساز ہے، راگ بدلے گئے

میاں جمشید، زندگی کے مشکل حالات کا مسکرا کر مقابلہ کرنے کے ساتھ رسک لینے اور ہمت سے آگے بڑھتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کچھ نیا و منفرد کرنے اور سیکھنے و سکھانے کا شوق بھی ہمیشہ ساتھ ساتھ رہا ہے اسی لیے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ مختلف معاشرتی موضوعات پر اصلاحی اور حوصلہ افزاء مضامین لکھتے ہیں۔ اسی حوالہ سے ایک کتاب "حوصلہ کا گھونسلا" کے مصنف بھی ہیں۔ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Mian Jamshed
About the Author: Mian Jamshed Read More Articles by Mian Jamshed: 111 Articles with 170888 views میاں جمشید مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور اپنی فیلڈ کے علاوہ مثبت طرزِ زندگی کے موضوعات پر بھی آگاہی و رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی Jamshad.. View More