فقیر، ادیب اور کفن

ایک فقیربادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور کہا۔ اگر مجھے آپکے دربار میں ابھی موت آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟۔ بادشاہ نے کہا تمہیں کفن دیکر دفنا دوں گا۔ فقیر بولاابھی میں زندہ ہوں مجھے پہننے کے لئے کپڑے دے دو اور جب میں مر جاوں تو بغیر کفن کے مجھے دفنا دینا۔ شاعر ، ادیب اور فنکارکسی بھی قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف قوم کی تعلیم تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

ایک فقیربادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور کہا۔ اگر مجھے آپکے دربار میں ابھی موت آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟۔ بادشاہ نے کہا تمہیں کفن دیکر دفنا دوں گا۔ فقیر بولاابھی میں زندہ ہوں مجھے پہننے کے لئے کپڑے دے دو اور جب میں مر جاوں تو بغیر کفن کے مجھے دفنا دینا۔ شاعر ، ادیب اور فنکارکسی بھی قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف قوم کی تعلیم تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ شعور بیدار کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک انکی تحریریں یا یہ خودا سٹیج کی زینت بنے رہتے ہیںہر خاص وعام ان کی تقریبات میں موجودگی باعث تسکین اور ضروری سمجھتا ہے۔ مگر جب یہ اپنی حد عمر یعنی بڑھاپے ، محتاجی یا بیماری کو پہنچتے ہیںتو انکی حالت زار قابل دید ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں کبھی کسی شاعر، ادیب یا فنکار کے لئے بنی ہی نہیں۔شاید انکی ترجیحات ہمیشہ سے اپنے خاندان کے بعدوزیروں مشیروں کو نوازنا رہی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنا بچپن ، اپنی جوانی سرکاری ٹی وی، ریڈیو سمیت دیگر اداروں کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔ یہی ادارے ان لوگوں کی حدعمر کے بعد ان سے رابطہ تک نہیں رکھتے ۔ اس صورتحال کا عملی مظاہرہ لاہور الحمرا ادبی بیٹھک میں بھی روز ہوتا ہے۔گزشتہ دنوںراقم کو ادبی بیٹھک جانے کا اتفاق ہوا تو ایک تقریب کے دوران دو بوڑھے شخص الحمرا ادبی بیٹھک میںداخل ہوئے اور کونے میں دروازے کے پاس کرسی پر چپکے سے بیٹھ گئے۔ ایک نوجوان کی کان میں آواز پڑی کے یہ اپنے وقت کے معروف اداکار اورادیب ہیں ۔ نوجوان چند ساتھیوں کے ساتھ اٹھا اور انکی ساتھ تصویر بنوانا چاہی۔ اس عمر رسیدہ شخص نے انکار تو نہ کیا مگرکہا کہ تقریب جاری ہے یہاں تصویر بنانا مناسب نہیں اور شاید تقریب کے منتظمین بھی ناراض ہو جائیں گے۔ اس لئے ہال سے باہر چلیں وہاں جتنی چاہیں تصاویر بنا لیں۔ مگر نوجوان نے اصرار کیا کہ یہاں تصویر بنانے میں کوئی مضائقہ نہیںاور تصویر بنانے لگے۔ ابھی بوڑھا شخص چھڑی کے سہارے سے بمشکل اٹھا ہی تھا اور نوجوانوں کا کیمرہ فریم سیٹ ہوا ہی تھا کہ سٹیج سے آواز آئی یہ محفل میرے اعزاز میں ہے صاحب، اس بوڑھے فنکار کے اعزاز میں نہیں، آئیے میرے ساتھ تصاویر بنوائیں اور میری بات غور سے سنیں یہ تو یہیں ہوتے ہیں۔ ادبی بیٹھک میں ادیب کی بے ادبی دیکھ کر نوجوان تو وہاں ایک پل نہ رک سکا مگر اپنے وقت کے معروف اداکار اور ادیب واپس کرسی پر سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ حاضر سروس کہہ لیجئے ادیبوں کی تقریبات میں تو قدر ہو ہی جاتی ہے مگر تب بھی انہیں سرکاری اداروں میں اچھوت کی نظر سے دیکھا جاتا ۔کسی ہسپتال ، تھانے، سرکاری دفتر میں کوئی چورلٹیرے،سیاست دان ، بلیک میلر صحافی کی نہ صرف بات کو غور سے اعلی افسر خود سنتا ہے بلکہ اسے چائے بھی پیش کی جاتی ہے ۔ مگر اسی جگہ اگر کوئی ادیب شاعر یا اداکار ہو تو اسکی بات کو سننا تودرکنار اعلی افسر تک رسائی کسی صورت ممکن نہیں ہوتی۔ ہسپتال کی دہلیز ہر روزادیب بیڈ اور ڈاکٹر کی فرصت کے منتظر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ادیب جب گھر جاتا ہے تو بیوی پوچھتی ہے بچوں کے لئے کیا لائے ہو؟۔ کیا تمہاری تحریر سے اسکی فیس ادا ہو جائے گی؟۔ کیا تمہارے اشعار بچوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں؟۔ وزیر اعظم نے تمہیں میڈل تو دے دیا ہے مگر کیا گولڈمیڈل دیکھا کرتمہیں ہسپتال داخل کر لیا جائے گا؟۔ کیا تمہاری خدمات کے عوض وطن عزیز کے ادارے بھی تمہارے قدر دان ہوں گے؟۔ شاید اسکے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ مگرپھر بھی اسکی ادب سے محبت بے لوث اور بے نظیر ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ترجیحی بنیادوں پر ادیبوں اور شاعروں کیلئے ہنگامی اقدامات کرے ۔ انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے اوربعد میں بھی انکی عزت و ضروریات کا خیال رکھے۔ اے حاکم وقت ! اپنے ملک کے ادیب کو آج ہی پہننے کے لئے کپڑے دے دو اور جب یہ مر جائیں توچاہے بغیر کفن کے دفنا دینا۔

M. Kamran Saqi
About the Author: M. Kamran Saqi Read More Articles by M. Kamran Saqi: 6 Articles with 3663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.