نون لیگ اور نااہل نواز شریف کا نظریہ

مسلم لیگ 1906میں برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے بنی جو ہندوستان میں پہلی نظریاتی جماعت کہلائی گئی ۔ مسلم لیگ کااولین منشور دو قومی نظریے تھا اور یہی اسی کی سیاست کرنے کی بنیاد بھی بنا۔ مسلمانو ں کی اس سیاسی جماعت نے برصغیر میں مسلم اور ہندو کے راہ و رسم روا رکھنے کی بنیاد اسی دوقومی نظریے پر رکھی تاکہ صدیوں پر محیط سماجی رابطوں کو نئی راہ دی جائے اور لوگوں کو اس بات پر آگاہی دی جائے کہ وہ ہندوؤں سے ہر معاملہ اور ہر انداز سے اسلام کی تعلیمات کے مطابق جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں ۔ رہن سہن کے طریقوں سمیت الگ ثقافت رکھتے ہیں جہاں سوائے معبود ِ برحق کی غلامی کے کسی اور کی غلامی تصور نہیں۔علامہ اقبال اوردیگر رہنماؤں نے محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم سیاست دانوں پر اس نظریے کی وضاحت کی جنہوں نے ہندوستان کے ہر مسلمان تک اس کی روح پہنچائی ۔ یہ نظریہ فکر تھی، سوچ تھی ، ایک خواب تھا، ایک معرکہ تھا جو مسلمانوں کو مزہب سمیت ہر طرح کی آزادی فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔مسلمانان ِہند اس پر جمع ہوئے ، قائم ہوگئے اور آزادی کی سیاسی جنگ کا باقائدہ آغاز ہوگیا۔ لوگوں نے اس جنگ میں جان و مال کی قربانی دی ، ہر عزیز ترین شے کو اس نظریہ پر قربان کردینے کا جذبہ دکھایا اور بالآخر مملکت ِ خداد کا قیام عمل میں آگیا۔علامہ اقبال کو زندگی نے اس آزادی کو دیکھنے کی مہلت نہ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے رفقاء کے ہمراہ یہ معرکہ سر کرکے دکھادیا کہ وہ جس نظریے کو لے کر چلے تھے اس کو منطبق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ نظریہ ضرورت نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کی حیثیت مسلمانوں کی برصغیر میں بقا تھی ۔ 1947میں اگست کے وسط میں اس نظریے کی جیت نے مسلمانوں کو سرخرو کیا ، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پاکستان فیصل بن گیا۔قائد اعظم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس نظریے پر عمل درآمد کیلئے دن دیکھا اور ہی رات کے آرام کی پر واہ کی ، آرام کی طلب تھی اور نہ اقتدار کی ہوس ، وہ ساتھیوں سمیت مسلمانوں کو مذہبی اور شخصی آزادی دلانے کی جدوجہد میں جتے رہے اور پاکستان بن گیا۔ یہ پہلا لیکن دشوار گزار مرحلہ تھا جو تکمیل کو پہنچا، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ قائد اعظم نے اس جانب واضح اشارہ کرتے ہوئے بتا دیا کہ ان کا مطمہء نظر زمین کا ایک ٹکرا حاصل کرنا قطعی نہیں تھا بلکہ اس مقصو د مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا قیام تھا، جس میں لوگ آزادانہ طور پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکیں ، اﷲ نے جو زندگی اور توانائی عطا کی ہے اس کو بھر پور صلاحیتوں سے تعمیری کاموں لایاجائے۔وہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نظریے کی بنیاد زندہ رہے ، ہر لحظہ مملکت ِ خداداد میں بسنے والوں کی بہتری میں کوشاں رہے ، ان کے رفقاء بھی اسی پر کاربند زندگی گزار گئے ، انہوں نے بھی ایمان داری ، دیانت دار یکے ساتھ جاہ و ہشمت اور اقتدار کے حصول کی پرواہ کئے بغیرکسمپرسی میں زندگی گزار کر یہ باور کرایا کہ اقتدار کی چکا چوند روشنی بھی ان کی آنکھوں کو خیرہ کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ یہ نظریاتی لوگ تھے، بنیاد پرست تھے، یہ جڑوں کی سطح تک استقامت رکھتے تھے، آندھی آئے یا سونامی ، ہر طوفان سے اﷲ کے فضل و کرم سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

پاکستان میں نظریاتی ہونے کا تصور بعد کے حالات اور افراد کی ذہنی قابلیت مسدود ہونے سے مختلف ہوا، عمومی تاثر ذات کی نفی کی بجائے ذات ہی کیلئے اقدام نظریاتی اساس کہلانے لگا ، اس میں جمہوریت کا وہ حسن ، اس کی نغمگی، شائشتگی ، لطافت ، اس میں پائے جانے والا ایثار سب کچھ دھندلکوں میں چلا گیا ، نظریاتی اساس میں اپنی ذات کے سوا معاشرہ کی بہبود، اس کی ترقی ، تعمیر اور بقا پنہاں ہوتی ہے جو آج کی سیاسی وسماجی زندگی کی تیزرفتاری ، افراتفری اور نفسا نفسی کے باعث کئی پردوں میں جاکر چھپ گئی ہے ۔ وہ جماعتیں جو نظریاتی ہیں انہیں کبھی موقع نہیں ملا کہ وہ عوامی خدمت کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں اگرچہ مشرف دور میں متحدہ مجلس ِ عمل کو میدان ِ عمل میں کارگزاری کا موقع غنیمت کے طور ملا ، یہ ملک میں مذہبی جماعتوں کا کئی اتحاد ہونے اور ٹوٹ جانے کے بعد ایک بار پھر سیاسی سطح پر نیا اتحاد تھا، مگر مشرف کے مسلسل حربوں نے نہ صرف یہ اتحاد توڑ ڈالا بلکہ پھر کبھی کسی نے اس جیسا اتحاد کرنے کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ اس اتحاد کی بدولت جو سیاسی قد حاصل کیا تھا ، جو فوائد پائے تھے انہیں سمیٹا بھی نہیں بلکہ اپنی اپنی سیاسی دال گلانے میں لگ گئے جس کا نقصان انہیں تو ہوا ہی لیکن عوام میں نظریاتی شعور بھی پھر سے غائب کردیا گیا۔

نظریاتی لوگوں کی خصوصیات میں سب سے بڑا پہلو یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ہر اس خواہش کی نفی کرتے ہیں جس سے ان کی ذات کی نفسانی تشفی ہو البتہ اس سے روحانی سکون ملنا خاص بات ہوتی ہے ۔ اس میں تکلیف راحت محسوس ہوتی ہے ، اس فرد کے ہاتھ سوائے نیک نامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا اور وہ اس میں بھی خوش و خرم دکھائی دیتا ہے ، اف کا لفظ آپ کو اظہار کے طور یہاں نہیں ملے گا، یہی روحانی تسکین کا بڑا منبع کہلاتا ہے ۔ آپ دنیا کا کوئی بھی شعبہ اٹھاکر دیکھ لیں جہاں آپ کو نظریاتی لوگ ملیں وہاں معاملات درست سمت جاتے ہوئے نظر آئیں گے البتہ یہاں عیش و عشرت کا تصور نہیں ملے گا، یہ لوگ اپنے لئے ، اقرباء کیلئے اور دیگر کیلئے ایک ہی طرح کے اصولوں پر کاربند ہوں گے ،یہ بظاہر تکلیف دہ کیفیت ہوسکتی ہے تاہم یہاں بگاڑ والی بات غیر محسوس ہوجاتی ہے۔جہاں جہاں نظریہ ضرورت نے اپنی جڑیں مضبوط کیں وہاں اصولوں سے انحراف ہوا، دیانت داری اور ایمان داری کا پہلو غیر واضح اور ہر شے پر ذات حاوی ہوگئی۔ذرا سی نرمی ، تھوڑی سی سہولت فراہم کرنے سے نظام میں بگاڑ آنے لگاپھر ایسا وقت بھی آگیا کہ لوگ بددیانتی کو اپنا حق قرار دینے لگے، عوام کے ووٹ اور ان کی تائید حاصل کرنے والوں نے عوامی فلاح و بہبود کے نام پر اپنا گھر بھرنا شرو ع کردیا ، خدمت کے جذبے میں ملبوس عوامی اور قومی خوشحالی کے بہانے اپنے خاندان کو خوشحال کرنا شروع کردیا گیا۔دولت سے دولت کمانے کا بہترین ذریعہ ان دنوں سیاست کا میدان ہے ۔

نواز شریف ایک کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیں عوامی خدمت کا بخار چڑھا تو یہ ایک آمر کی آغوش میں رموز سیاست سیکھنے چلے گئے ، آمرانہ ذہنیت سے وہ جمہوریت کی تعلیم لینے لگیاور اسی تربیت کے باعث ان کی سیاسی جماعت عرصہ سے ان کے زیر عتاب نظریہ اقتدار پر قائم اہل سیاست کی ہم رقاب ہے۔پنجاب کی وزرات اعلیٰ سے لیکر ملک کے تین بار وزارت ِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے کے باجود ہر باراپنے اقتدار کی آئین مدت پوری نہ کرنے کے بعد انہیں خیال آیا کہ اب تک ان کا نظریہ عوام پر غیر واضح تھا ، سوچا اب وضاحت کردینی چاہئے قبل اس کے کہ لوگ ان سے ایک بار نااہل ہونے کی وجہ نہ پوچھ بیٹھیں۔
تین بار ملک کے وزیر اعظم پاکستان بن کر کسی نہ کسی وجہ سے نوا ز شریف نااہل ہوئے ، آخری بار کی نااہلی نے انہیں غم زدہ کردیا ، وہ دکھی ہوئے ، مداوہ کرنے کوئی نہیں آیا بلکہ فیصلہ پر نظر ِ ثانی درخواستیں بھی مسترد ہونا ان کی سیاسی زندگی میں تاریکی کا باعث ٹہرا۔ میاں صاحب کا دل قوم کیلئے ہی دھڑکتا ہے ، اس بات کی انہیں خبر ہے، گھر والے جانتے ہیں یا پھر ان کے مشیر ، وہ اس درد میں بے حال ہیں ، مضطرب ہیں ، تلملاتے او ربلبلا رہے ہیں لیکن کوئی صورت نظر نہیں آرزو پوری ہونے نہیں دی جاتی۔ آپ یہ دیکھیں انہوں آئین ہی میں ترمیم کروادی کہ انہیں ملکی سیاست میں رہناہے چاہے دنیا کس قدر ہی کیوں مخالفت کرلے،یہ الگ بات ہے کہ وہ حقائق سے سامنا کرتے ہوئے کتراتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کیلئے مارچ کریں گے، عوام کو ووٹ کے تقدس کی خاطر ان کا ساتھ دینا ہوگا، کون سا ووٹ او رکون سی عظمت ، یہ آپ NA-120میں نون لیگ کی کامیابی کے بعد بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کامیابی کے باوجود تاحال اس حلقے کے عوام کی نمائندگی پارلیمان نہیں ہورہی ، ایک ایسے امیدوار کو کامیاب کروایا گیا جو ابتدا ء سے اب تک زیر علاج ہے ، ایسافرد جو خود علاج کی خاطر وطن سے باہر ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہووہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے کیا اقدامات کرے گا، کیا یہی عوام کے ووٹ کی تعظیم ہے ، اس کے وقار کی بلندی ہے جس کیلئے وہ جنگ کرنے چلے ہیں ۔ حسین اور حسن نواز انکے فرزند ہیں ، یہ پاکستانی ہونے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ انہیں نظریہ کرپشن کیخلاف کام کرنے والے ادارے گرفتار ہی نہ کرلیں البتہ ان کی صاحبزادی مریم بی بی والد کے نظریاتی سیاست پر عمل پیرا ہیں ، خیال یہ ہے کہ ان کے ہمرا ہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بھی اسی نظریہ کرہشن بچاؤ پر عمل پیرا ہیں اور گزشتہ دنوں کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں ان کی نظریاتی رشتہ دار ی کا انکشاف ہوچکا ہے ، یہ لوگ نظریاتی رشتہ دار کیوں نہ ہوں ، ایک بھائی بلوچستان کا گورنر لگا ہوا ہے ، دو بھائی صوبائی وزیر ہیں اور خود محمود خان اچکزئی وفاق میں بیٹھ کر ان کی نوکری لگوانے اور پھر پکی کروانے کیلئے ہر وقت وفاقی حکومت سے رشتوں کی پینگیں بڑھاتے رہتے ہیں ،ادھر میاں نواز شریف بھی رشتہ داروں اور عزیزوں کو مزید کرنے کے نظریے پر کاربند چلے آرہے ، مولانا فضل الرحمان کا سیاسی نظریہ تو ویسے ہی کسی ڈکھا چھپا نہیں ، سینیٹ میں انکی جمعیت ہی کا ڈپٹی چیئرمین لگا ہوا ہے حالانکہ ابھی چند دن پہلے ایک کارنامہ ان کی ناک تلے ہوتے ہوتے رہ گیا ۔سیاسی رہنماؤں کا یہ جتھا کہتا ہے کہ ہم آمریت نواز کے خلاف اور جمہوریت نواز کے حامی ، دوست اور مدد گار ہیں ، ان باتوں سے کوئی خوش ہو یا نہ ہو نواز شریف کا سیروں خون ضرور بڑھتا ہے اور سرے عام بڑھکیں ماررہے ہیں کہ جس طرح کا فیصلہ ان کیخلاف آیا ہے ایسے فیصلے انتشار پیدا کرتے ہیں ۔ادارے سیاست کریں گے تو ریاست کمزور ہوجائے گی ، ان کے معاملہ میں اداروں نے سیاست کھیلی اور تعصب کا رویہ رکھا گیا۔کہا جارہا ہے کہ ان دنوں ملک میں جمہوریت کی لڑائی لڑی جارہی ہے ، ادارے جمہوریت کی بقا اور سیاست دانوں کی اکثریت اس کو اپنے لئے ڈھال بنانے کے درپے ہیں ۔شخصیات اداروں سے اہم ہوتی چلی جارہی ہیں حالانکہ نظریہ قیام پاکستان کی رو سے شخصیات سے زیادہ ادارے اور اداروں سے بڑھ کر ریاست اہم ہوتی ہے ۔آئینی شقیں ذاتی فائدے کے حصول کیلئے استعمال ہونا شروع ہوگئی ہیں ، خیال کیا جارہا ہے کہ آئین میں تجاوزات کھڑی کی جانے کی روش نے زور پکڑنا شرو ع کردیا ہے اور حالات یہ بن گئے ہیں کہ ملک آگے بڑھنے کی بجائے ایک مخصوص دائرے میں اسی طرح سے گردش کررہا ہے جیسے کنویں کا مینڈک اسی کو اپنی تمام دنیا سمجھ کر ٹراتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

وطن ِ عزیز میں انصاف کا حصول اور اس کی جانب عوام کی توجہ کم رہی لیکن ججز بحالی کی تحریک کے بعد سے ہر ایک کی نگاہ ریاست کے اس اہم ترین ستون کی جانب بہت زیادہ اور موثر انداز میں جاتی ہوء ی محسوس ہوئی ہے اور پاناما کے کیس کے بعد چاہے کچھ بھی ہوجائے عام آدمی سے لیکر اہل سیاست کے تمام لوگ اس سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ بعض اس پر بھروسہ اس وجہ سے کرنے کو تیا ر نہیں آمدہ فیصلوں میں ان کیلئے خوش خبری کی جگہ بدنامی اور نامرادی موجود تھی۔بعض کا معاملہ ابھی عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور ان کا گمان ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہوجائیں گے لہٰذا و ہ اس کے پیچھے بیٹھ کر سیاست کے جوہر دکھارہے ہیں جس سے مخالفین کو جوش خطابت کیلئے امکانات پیدا کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔آپ اس طرح کے منظرناموں سے روز کی بنیاد پر آگاہی حاصل کرہے ہوں جو آپ کیلئے ابلاغ کے ادارے بہم پہنچاتے رہتے ہیں لیکن اتہائی حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی بھی جمہوریت انصاف کے قریب سے بھی نہیں گزری، اس کے باوجود سیاستدانوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا ناشروع کردیا ہے جو کسی آزمائش سے کم نہیں ،نتیجۃًپارلیمان پیچھے رہ گئی اور ایک ایسا ادارہ جسے مقرر کیاجاتاتھا اب وہ ان کے فیصلے کررہا ہے ، وجہ سیاسی تربیت کا فقدان ہے ۔ اگرا س بات کی حقیقت جاننا ہو تو پچھلے اور موجودہ ایوان کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لے لیں کہ کب کتنے اجلاس ہوئے اور ان میں کس قدر قانون سازی کی گئی؟آپ کو قعطی دشوای محسوس نہیں ہوگی کہ ہمارے یہاں جمہوریت کی لڑائی کس طرح لڑی جارہی ہے ۔

قومی اسمبلی میں گزشتہ ماہ نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل مسترد ہوا ، یہ بل بنیادی طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل کئے گئے نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے سے متعلق تھا ، حکومت نے عددی اکثریت سے یہ بل مسترد کروایاکہ ایسا بل منظور نہیں کیا جاسکتا جس میں تعصب اور نفرت پائی جاتی ہو ، ایسا بل جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت مخالف قوتیں بہت زیادہ مضبوط ہیں ، پاکستانی سیاست میں عوامی و قانونی مسائل کو پالیمان سے ہٹ کر سڑکوں پر پیش کئے جانے کا چلن عام ہے ۔ نواز شریف بھی اسی راہ کے مسافر ہوچکے ہیں ، وہ اپنی نااہلی کا بوجھ لئے ملک بھر میں جلسے کررہے ہیں ، مخالفین بھی انہیں زیر کرنے اسی شاہراہ پر کمر بستہ موجود ہیں ۔ زرداری صاحب اپنی دنیاآپ پید اکرکے اصول پر عمل پیرا ہیں جبکہ نواز شریف مفاہمت کے بادشاہ کا ہاتھ تھامنے کو بے تاب ہورہے ہیں ، پی ٹی آئی کا نظریہ سیاست فی زمانہ عدلیہ کے احکامات کی پاسداری اور اس کے وقار کو مجروح بلند کرنا ہے ، یہ نظریہ نون لیگ کے انداز سیاست سے مختلف نہیں البتہ صورتحال کے مطابق بھی اس کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کیخلاف ابھی فیصلہ آنا باقی ہے اور ان کا خیال ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا چنانچہ وہ عدلیہ کو سایہ دار شجر گمان کررہے ہیں جبکہ نواز شریف کے مطابق یہ ان کیلئے شجر ممنوعہ ثابت ہوچکا ہے جس میں انہیں مائنس کرنے کی پالیسی کارفرما رہی ہے ۔

جمہوریت کی لڑائی کا عام مطلب جمہوریت کی بحالی اور اس کے تادیر قیام کی خاطر جدوجہد کرنا ہے ، مسائل کا حل چونکہ جمہوری اداروں کے وجود سے ممکن ہے لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ ملک اور جمہوریت کی بقا جمہوری اداروں کے قیام اور جمہوری اقدار کی پاسداری میں مضمر ہے نہ کہ ذاتی نظریے کو قومی نظریہ پر مسلط کردیا جائے۔اسلام آباد دھرنے کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا جس میں فوج نے ثالثی کا کردار ادا کیا، یہ بات عدلیہ کو پسند آ ئی اور نہ ہی نواز شریف اس کے حق میں نظر آئے اس کے باوجود وہ تمام تر صورتحال میں خود بھی خاموش رہے اور ٹوئٹر پر سیاسی بیانات داغنے والی ان کی صاحبزادی نے کوئی اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا، معاملہ معاہدے پر ختم سمجھا گیا ، لیکن عدالت کی برہمی پر میاں صاحب بھی ہوش میں آئے تاہم وقت گزر چکا تھا ، یہ بھی سیاسی پوائنٹ اسکورننگ تھی جو میاں صاحب نے دھرنے کے ختم ہونے پر اجلاس میں غصہ کرکے کی ۔

نون لیگ کا نظریہ ریاستی اداروں کیخلاف محاذ آرائی پر مبنی نظر آتا ہے ، نون لیگ کے بعض عناصر اس پر کھل کر تنقید کرتے اور بعض کا استدال کمزور ترین ہے انداز میں ہے کہ وہ اس طرز کی سیاست سے گریز کریں کیونکہ بھٹو نے بھی آکری دنوں میں عوامی ظاقت کو اپنے حق میں تصور کیا اور کچھ لوگوں نے انہیں اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے تختہ دار پر چڑھا دیا تھا ، عدلیہ اور فوج کو متنازع بنانے کی روش سے انہیں جو نقصان ہوگا وہ الگ ، پارٹی پر جو اثرات پڑیں گے اس کا اندازہ میاں صاحب کو نہیں ہورہا۔ غالباً وہ بھی سیاسی شہادت کے متمنی ہیں اور شاید ان کی صاحبزادی اسی کے عوض آئندہ دنوں سیاست کرنا چاہتی ہیں ۔

پس یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ان کی سیاست اور نظریہ ملک کو تقسیم کی جانب لے کر جارہا ہے جہاں ادارے باہم دست و گریبان ہوں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
 

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 42995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.