تعلیمی نصاب کا اسلامی تصور: ایک جائزہ‘ ایک حقیقت

تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔ جس کے چار بنیادی عنا صر یعنی مقاصد تعلیم، نصاب ،طریقہ ہائے تدریس اور جائزہ کے طریقے ہیں۔ ان سب میں اہم ترین عنصر ’’نصاب ‘‘ہے۔ جس کو تعلیم کا دِل کہاجاتا ہے۔ نصاب اصل میں وہ آلہ ہے۔ جس کے تحت کوئی تعلیمی ادارہ اپنا فرض بجا لاتا ہے۔ اور قومی مقاصد تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مقاصد تعلیم اگر نشان منزل یا منزل کی حیثیت رکھتے ہیں تو نصاب اس منزل کاراستہ ہے۔جس پر کوئی شخص چل کر اپنی منزلِ مقصود پالیتا ہے۔

اسلام میں تعلیم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔کیوں کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا علم و عرفان ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ہر فرد کی دینی اور دنیوی زندگی کی جداجدا پہلوؤں سے صحیح تشکیل و تعمیر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سیاست کو دین سے جدا نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح تعلیم بھی دین کے ساتھ وابستہ ہے۔ تخلیق آدم ؑ کے وقت اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جس دولت سے نوازا تھا۔وہ ’’علم الاشیاء‘‘ تھا، جس کی بناء پر حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں پر فوقیت ملی اور انسان اشرف المخلوقاتبنا۔ حضور اکرمؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس میں علم اور ذرائع علم کی اہمیت کے بارے میں واضح اشارات ملتے ہیں ارشاد ربانی ہے۔ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،خون سے انسان کو۔ پڑھ تیرا رب کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی‘‘۔

نبی اکرم ﷺ کے چشمہ فیض سے پھوٹنے والے نظام تعلیم کی بنیاد قرآن پاک تھی۔ قران کریم کی قرأت وکتابت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم بھی نصاب میں رفتہ رفتہ شامل ہوتے رہے۔ جیسا کو صرف و نحو، شعر وادب، تفسیر وحدیث ، فقہ واصول فقہ، تاریخ وجغرافیہ ، کیمیاء و حیاتیات ، فلسفہ و منطق، طب ونجوم اور ریاضی واقلیدس وغیرہ۔ علماء حضرات اپنی دینی سوچ اور بصیرت سے ان علوم کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے رہے۔ اگر ہم مسلمانوں کی قدیم درسگاہوں اور خود علماء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ تو ہمیں یہ بات واضح طور پر دکھائی دے گی۔ کہ ہر دور میں دنیاوی علوم کو اسلامی نصاب کا جزو قرار دیا گیا۔ امام غزالی پہلے مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے دنیاوی علوم کو اسلامی نصاب میں شامل کیا ۔آپ کے نقطہ نظر میں نصاب اس طرح ہونا چاہیے۔ کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کیلئے مفید ہو۔ آپ نے فرض عین اور فرض کفایہ دونوں کو نصاب میں شامل کیا۔ ابن خلدون نے علو م کو طبعی اور غیر عقلی علوم کے د و گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ سر سید احمد خان نے اسلامی تعلیم اور مغربی علوم میں امتزاج یعنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی آرزو تھی کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو، اور دوسرے ہاتھ میں جدید علوم اور سر پر لا الہ الا اﷲ کا تاج۔ علامہ اقبال ؒ خود تعلیم کو اور حصول تعلیم کو مقصد حیات قرار دیتے ہیں۔ آپؒ کے خیال میں اسلامی اقدار کا احیاء اور پھیلاؤ اور اسلامی اصولوں کی پاسداری تعلیم کا اولین مقصد ہے۔ آپ کے خیال میں تعلیم کا اصل مقصد خودی، اپنی روایات کا پاس اور اپنی بقا ہے۔ اور تعلیم اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ آپؒ فرماتے ہیں۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

دور قدیم میں مسلمانوں کی درسگاہوں میں بھی دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تعلیم کا سلسہ جاری رہا۔ نظامیہ اور المستنصر‘ یہ دو عظیم ترین درس گاہیں تھیں ۔ان میں علم کی تقسیم کا کوئی تصور نہ تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف علوم ان درس گاہوں کے نصاب میں شامل ہوتے رہے۔ جیسا کہ زراعت، شہریت، سیاست ، تعمیرات وغیرہ۔ دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں بے شمار علوم شامل ہیں۔ اور جن کو دو درجوں میں بانٹا گیا۔ پہلا درجہ جو علوم عالیہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس میں قرآن کریم کی تفسیر، اصول تفسیر ، فقہ ، اصول فقہ، تصوف اور علم عقائد وکلام وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ دوسرا درجہ جو علوم الہٰیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں ادب، عربی ،حساب ،علم ہندسہ، فلسفہ، مناظرہ اور تجوید وقرآن وغیرہ شامل ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا بنیادی مقصد موجودہ نصاب کی تصحیح کرنا اور مسلمانوں کو بیک وقت دینی اور دنیاوی علوم اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر فراہم کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی۔ کہ اس نصاب میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم شامل تھے۔ جس میں قرآن ، تفسیر، حدیث، تاریخ ، اور شہریت کے ساتھ ساتھ جدید علوم اردو، ہندی اور انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔

افسوس کہ ہماری موجودہ نظام تعلیم میں دینیات کو ایک الگ مضمون کی حیثیت دی گئی ہے۔ اور باقی مضامین کو اسلامی تصور سے دور رکھا گیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایک مکمل نصاب ہوتا جس میں عصری علوم کے اندردینی علوم کو ضم کیا جاتا۔تاکہ افراد کی تعلیم و تربیت اسلامی عقائد و نظریات کے زیر سایہ ہوتی۔ اور اُن میں رو حانی اقدار پیدا ہوکرمعاشرے کے بہترین اور مفید شہری ثابت ہوتے۔ لہٰذا موجود نصاب کو صحیح خطوط پر استوار کر نے کی اشد ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ انگریزہندوستان کے کسی ریلوے سٹیشن پر چائے پی رہا تھا۔ کہ اتنے میں ریل گاڑی آگئی۔ اس نے چائے ادھوری چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور چائے ٹھنڈی کرنے کی غرض سے برف کی ڈلی منگوائی۔جب ہوٹل کی انتظامیہ اور لوگوں نے انگریز کو چائے میں برف ڈالتے دیکھا۔ تو انہوں نے بھی چائے کے ساتھ برف استعمال کرنا شروع کردی۔ اور یہ بات مشہور کردی کہ برف ڈالنے سے چائے کے نقصانات کم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یہاں تک محدود نہیں ہے۔ اہل مشرق خصوصاً مسلمانوں نے خوراک ، لباس اور رہن سہن میں مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید شروع کردی۔ بلکہ اپنی تعلیم اور تعلیمی نصاب کو بھی مغرب کی بے عقیدہ سوچ کے مطابق بنا لیا ہے۔ہم مغرب کی تحقیق اور ایجادات کو استعمال کرتے ہیں، یعنی اُن کے فروٹ کو صرف کھاتے ہیں اور ہم اُن کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔مثال کے طور پر مغرب نے کافی تحقیق کے بعدکہا کہ مدرسوں میں مار پٹائی کی بجائے پیار سے پڑھنا اچھے نتائج دیتا ہے۔اَب اُن معاشروں میں مدرسوں میں مار پٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ہم نے بھی اُن کے فروٹ کو کھانا شروع کردیا اور مدرسوں میں ’’مار نہیں پیار‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اُنہوں نے اگر مار پٹائی پر پابندی لگائی ہے تو انہوں نے ضرور اس کے متبادل طریقے بھی بتائے ہوں گے کیوں کہ اُنہوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔ اور ہم نے صرف مارپٹائی پر پابندی عائد کردی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی و خوشحالی امت مسلمہ سے روٹھ گئی ہے۔ پس یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب کو اسلامی عقائد، اصولوں اور نظریات کے مطابق بنا لیں۔ اور ہمیں ایک ایسا نصاب تشکیل دینا ہوگا۔ جو فرد کی دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے تعمیر و تشکیل کریںَ اگر ہم آپﷺ کی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھیں۔ تو ہمیں یہ بات معلوم ہو گی کہ معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف دینی تعلیم پر توجہ دی۔ بلکہ دیگر مفید دنیوی علوم کے سیکھنے پر بھی خاص توجہ دی۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے آپؐ کے حکم سے عبرانی زبان سیکھی۔ اور جبکہ حضرت عروہ بن مسعود ؓ اور حضرت غیلان بن مسلم ؓ منجنیق کی صنعت سیکھنے کیلئے جرش نامی علاقے کو گئے۔آپؐ نے نظام تعلیم کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیمات پر رکھی۔ بعد میں قرآن کریم کی قرأت و کتابت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم صرف و نحو، تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول فقہ، تاریخ و جغرافیہ ، کیمیاء ، حیاتیات، فلسفہ و منطق ، طب ونجوم اور ریاضی واقلیدس بھی نصاب کا حصہ بنتے رہے۔

پس نصاب کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ میں ان کے دین اور نظر یہ حیات کی آگاہی پیدا کرے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ افراد کو زندگی کا مفہوم اور مقصد دنیا میں انسان کی حیثیت ، توحید ورسالت اور آخرت کے زندگی پر اثرات اور اخلاقیات کے اسلامی اصول سے آگاہ کیا جائے۔ نصاب میں یہ قوت موجود ہوکہ وہ ایسے افراد پیدا کریں۔ جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی نظریات پر بھر پور یقین رکھتے ہوں اور اسی یقین کی روشنی میں زندگی کے ہر میدان میں وہ اپنا راستہ خود بنا سکیں۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ اہل علم، حق اور سچائی کے گواہ ہیں ۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.