موٹے بچوں کا مستقبل خطرے میں

بچوں کے حوالے سے ماﺅں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اُن کی خوراک کا ہوتا ہے۔ بچوں کو اُن کے پسندیدہ کھانے کھلاکر موٹا کرنے کی خواہش مند مائیں‘ اُن کے چھوڑے ہوئے کھانے کھا ‘کھا کر خود اپنا وزن بڑھا لیتی ہیں۔بچے تو بچے ہیں‘ وہ اس وقت تک کھانا کھا کر نہیں دیتے جب تک انہیں اپنی مرضی کا کھانا نہ مل جائے۔بچوں کا پیٹ بھرنے کے چکر میں مائیں انہیں جنک فوڈ اور دیگر ایسے کھانے بھی پیش کردیتی ہیں جو ان کی صحت کے لئے مفید نہیں اور انہیں موٹاپے کی جانب مائل کردیتے ہیں۔پورا کھانا کھلانے کی خواہش میں مائیں بچوں کو بہت زیادہ اور وقتاً فوقتاً کھانا کھلانا معمول بنالیتی ہیں ‘ ایسے بچے بہت زیادہ موٹاپے کی جانب مائل ہوجاتے ہیں جو یقینا ان کے لئے بہتر نہیں ہے۔ کھانے پینے کے معمولات میں اضافہ بچوں کو نہ صرف موٹاپے کی طرف مائل کرتا ہے بلکہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اکثر اوقات شدید بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

بچوں میں بڑھتے موٹاپے کو عالمی ادارہ صحت نے ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیاہے کہ اگر بچوں کے بڑھتے موٹاپے کو روکنے کے لئے کوئی بھرپور اور مربوط منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو یہ مسئلہ سنگین صورتِ حال اختیار کرسکتاہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فربہہ بچوں کی تعداد1990 ءمیں3 کروڑ 10 لاکھ تھی ‘ اگر موجودہ صورت حال جاری رہی تو 2050 ءتک دنیا بھر میں فربہہ بچوں کی تعداد7 کروڑتک پہنچ جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں بڑھتے موٹاپے کو رُوکنے کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

بچوں میں موٹاپے کی شرح رُوکنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو زیادہ نہیں بلکہ صحت بخش کھانے کھلائے جائیں اور اُن کی غذا پر شروع ہی سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے‘ مثلاً یہ کہ ایک سال کی عمر سے بچے کو پھل اور سبزیاں کھلانے کی کوشش کی جائے گی توزیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ وہ اُن چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دے گا اور پھر یہ سلسلہ تازندگی جاری رہے گا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ بچوں کو وہی کھلائیں جو خود کھارہے ہوں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے ایک سال کے دوران بچے کے وزن کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک شیر خوار فربہہ اورصحت مند بچے اور ایک ذرا بڑی عمر کے فربہہ بچے یا موٹے نوجوان میں بڑا فرق ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی جان لینا چاہئے کہ عمر کے پہلے 2 سال کے دوران بچے کے دماغ کی جو نشوونما ہوتی ہے اس کے لئے اسے غذا میں چربی کی ضرورت ہوتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس عمر میں بچے کے موٹاپے کی فکر کی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 4سال کی عمر میں بھی بچے میں موٹاپا موجود رہے تو پھر والدین کو اس کے علاج کے بارے میں سوچنا چاہئے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ بچے کے وزن کو زیادہ یا بچے کو موٹا کب کہا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق اس کے لئے بچے کے قد اور وزن کو اس پیمانے پر جانچا جائے جو ماہرین نے قداور وزن کی مناسبت کو پیش رکھتے ہوئے تیار کیا ہے۔اگر بچے کا وزن اس کے قد کی مناسبت سے دُرست نہیں یعنی زیادہ ہے ‘تو بہتر ہوگا کہ معالج سے رجوع کیا جائے۔

بچے کی غذا کے بارے میں والدین کی سوچ مثبت ہونی چاہئے ۔نہ بچوں کو خوش کرنے کے لئے انہیں ان کی پسندیدہ غذا خوب کھلائیں اور نہ ہی اُن سے ناراض ہو کر انہیں اُن کی پسندیدہ غذا سے محروم کریں ۔موٹاپے کے خوف سے اگر بچوں کو کم چکنائی والی غذا دی جائے تو اس طرح بچوں کی نشوونما خطرے میں پڑ جائے گی ‘اس لئے اُن کے لئے متوازن خوراک کا انتخاب کیا جانا ضروری ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بچپن میں موٹاپے کی ایک اہم وجہ بچوں کا ورزش نہ کرنا اور بھاگ دوڑ سے کترانا بھی ہوتا ہے۔ انہیں اس جانب مائل کیا جانا چاہئے۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اکثر موٹے بچے نہ صرف بد مزاج ہوتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں‘لہٰذا والدین کو چاہئے کہ بچے کے مسائل کے بارے میں اُن سے گفتگو کرتے رہیں تاکہ اُن میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 14 Articles with 12525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.