گلاب جامن

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو روز سونے سے پہلے ایک کہا نی سنایا کرتی تھی۔ یہ کہانیاں عام طور پر فرمائشی ہوتی تھیں‘ یعنی جو کہا وہی سناؤں۔ ان کی فرمائشیں بہت معصوم مگر بے حد عجیب و غریب بھی ہوتی تھیں۔ کبھی کہتے چائے کی کہانی سناؤ‘ کبھی تولئے کی کہانی‘ کبھی بادلوں میں بنتی شکلوں کی کہانی اور میں کچھ سنی سنائی اور کچھ گھڑی ہوئی باتوں سے ایک کہانی بن ُکر سنا دیا کرتی تھی‘ مجھے لگتا ہے شاید کہانی کہنا میں نے اُن ہی سے سیکھا۔

ایک رات جب گھر میں دعوت کے بعد ہم دادای اماں کے کمرے میں سونے کے لئے لیٹے تو جو فرمائش آئی وہ بہت مزیدار بھی تھی اور حیران کن ُ بھی یعنی گلاب جامن کی کہانی سنائیں‘ شاید دعوت میں گلاب جامن کھانے کے بعد ہی بچوں کو اس بات کا خیال آیا ہوگا۔ میں نے کہانی کا رُخ دادی اماں کی طرف موڑ دیا تھا کہ آج ہم دادای اماں کے کمرے میں ہیں تو وہی کہانی بھی سنائیں گی‘ دادای اماں کی معلومات بھی خوب ہیں اور وہ کتابیں بھی بہت پڑھتی ہیں تو یقینا انہوں نے گلاب جامن کے بارے میں بھی پڑھا ہوگا۔

دادی اماں نے کہانی کچھ اس طرح شرو ع کی۔اب سے کئی سو سال پہلے کا ذکر ہے جب مغل بادشاہ ایران اور افغانستان سے ہوتے ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ اپنے باورچی بھی لے کر آئے جو اُن کی پسند کے کھانے بناتے‘ کبھی پورا بکرا بھو ُنتے تو کبھی بریانی بناتے۔ طرح طرح کے کھانے دسترخوان پر سجائے جاتے ۔ کھانے کے بعد دل چاہتا کہ کوئی میٹھا بھی کھایا جائے۔ کھانے کے بعد میٹھا پیش کرنے کا رواج بھی مغل بادشاہوں نے ڈالا تھا۔گلاب جامن رشتے دار ہے ایران ‘ ترکی اور اس کے اُوپر کے علاقوں کی مٹھائیوں کی۔ ایران افغانستان میں ہوتی ہے بامیا ‘ جو پکوڑوں کی طرح تل کر شیرے میں ڈال دی جاتی ہیں ۔ ایک مٹھائی ہوتی ہے جسے عرب کہتے ہیں لقمة القاضی جس کا ذکر قدیم کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ بھی پکوڑوں کی طرح َتل کر شکر کے شربت میں کئی گھنٹوں کے لئے ڈبودی جاتی پھرپسی دارچینی اور تل چھڑک کر پیش کی جاتی ‘مگر جب یہی مٹھائی ہندوستان پہنچی تو اس کا نام بدل گیا اور عربی کے بجائے فارسی اور ہندی کو ملا دیا گیا اور یہ گلاب اورجامن کے نام سے مشہور ہوگئی۔ گلاب جامن کے شیرے میں گلاب کا عرق ڈلتا تھا‘ اس لئے وہاں سے تو آیا گلاب اور جامن جیسے رنگ کی وجہ سے وہاں سے لیا گیا جامن ‘بس اس طرح دو نام مل کر ایک نام بن گیا۔پہلے صرف ہندوستان پاکستان کے آس پاس کے ملکوں میں ملتی تھی مگر اب پوری دنیا میں ملنے لگی ہے۔ مجھے یاد ہے جب تمہارے دادا پاکستان بننے سے پہلے نیپال گئے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ نیپال میں گلاب جامن کو لال موہن کہتے ہیں۔ پھر دادی اماں نے گلاب جامن بنانے کی ترکیب بھی بتائی جس کے مطابق کھوئے میں تھوڑا سا میدہ اور سوڈا ملا کر پانی سے گوندھ لیں‘ چھوٹی چھوٹی گولیاں بنا کر درمیانی آنچ میں تل لیں‘2 پیالی پانی میں شکر‘ الائچی اور زاعفران ڈال کر شیرہ بنائیںاور ذرا گرم شیرے میںگلاب کا عرق ملا کر تلی ہوئی گلاب جامن کو 2سے3گھنٹوں کے لئے بھگو دیں۔ گلاب جامن کی چھوٹی سی گولی شیرہ پی کر بڑی ہو جائے گی پھر ڈش میں نکال کر پستے بادام سے سجا کر پیش کر دیں۔ انہوں نے ہمیں اچھی گلاب جامن بنانے کی کچھ ٹپس بھی بتائیںجیسے کہ گلاب جامن کے کھوئے کو بہت زیادہ نہیں گوندھیں۔ نرم گلاب جامن بنانے ہوں تو گلاب جامن کی گولیاں بنا کر 10منٹ کے لئے رکھ دیں پھر تلیں۔ انہیں زیادہ گرم تیل میں نہ تلیں ورنہ گلاب جامن باہر سے سر ُخ اوراندر سے کچی رہے گی ۔

جب میں اپنی یادوں کو لکھتے ہوئے لقمة القاضی کے بارے میں ڈھونڈ رہی تھی تو پتہ چلا کہ ترکی زبان میں اور عربی میں لقمہ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز سے منہ بھر جانا تو پہلے تو اتنی بڑی گلاب جامن بناکرتی تھیں کہ اگر ایک منہ میں رکھ لیںتو منہ کئی منٹ کے لئے بند ہوجاتا‘ مگر اب بائٹ سائز گلاب جامنیں دستیاب ہیں جنہیں لوگ پیار سے گل بی (gulbi) کہہ کر پکارتے ہیں۔ کراچی کی کئی دکانوں پر اب بھری ہوئی گلاب جامن بھی ملنے لگی ہیں جن میں کریم یا خشک میوہ بھر دیا جاتا ہے تاکہ جب کاٹ کر رکھا جائے تو زیادہ خوبصورت لگے اور کھانے والے کو بھی ایک میٹھا تحفہ ملے‘تو پھر کب بنا رہے ہیںآپ گلاب جامن؟؟؟
٭ لقمة القاضی کا ذکر 13 ویں صدی میں البغدادی نے کیا ہے۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 14 Articles with 12561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.