وزیراعظم اور لیگی کارکن

عوام کی اصلاح کرنے اور فساد کا خاتمہ کرنے کا نام سیاست ہے جبکہ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہے، فن حکومت کی سیاست نے رشتوں کوجوڑنے کی بجائے ان میں بھی دراڑیں ڈالنی شروع کردی ہیں، مثبت سوچ پروان چڑھنے کی بجائے منفی سوچ کو فروغ مل رہا ہے، سیاست جھوٹ و فریب کا نام بنتا جارہاہے، اقتدار کی خاطر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ہر طریقہ اپنایا جارہاہے، اگر اصلاح کے قریب اور فساد سے دور رکھنے کی سیاست پر عمل رہے تو وہی لوگ خدمت خلق کیلئے چنے جاسکتے ہیں جو ذاتی مقاصد سے کو پس پشت ڈال کر اجتماعی سوچ کیساتھ آگے بڑھیں اگر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی اس وقت وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا طرز سیاست اہل مغرب کی سیاست سے کوسوں دور ہے ، سہانے خواب دکھانے والی جماعتوں سے کارکنوں کو اجتماعی نہیں ذاتی مسائل کے حل کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اُسی جماعت کیساتھ چلنا چاہتے ہیں جس کا امیدوار اسمبلی اُسے ذاتی حیثیت سے جانتا ہو اُس کی قربانیوں کے ثمر کی اُس کی ایڈجسٹمنٹ ہو۔سیاست اتنی مشکل ہوتی جارہی ہے کہ اب کسی بھی جماعت کو امیدواروں کی کمی نہیں رہتی، ہر امیدوار ذاتی حیثیت کیساتھ اپنی پاور بنانے کے چکروں میں رہتا ہے تاکہ جب قیادت اُسے یہ سوال کرے کہ تم الیکشن جیت سکتے ہو تو وہ اپنا پاور شو کر کے دکھائے، میرے نزدیک یہ معاشرے کی بگڑتی صورتحال ہے ، اصل وجہ یہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی تربیت کا فقدان ہے، اسٹڈی سرکل فعال نہیں ہیں، طلباء تنظیموں سے لیکر مرکزی سیاسی جماعتوں تک اب رہنما زیادہ اور کارکن نہ ہونے کے برابر ہیں۔

2011 ء اور 2016 ء کے عام انتخابات کا موازنہ کیا جائے تو 2011 ء کے مقابلے میں 2016 ء کے انتخابات میں کامیاب ہونیوالی جماعت مسلم لیگ ن کا طرز حکمرانی یکسر مختلف ہے، اس طرز سیاست کو اصلاحی نقطہ نظر سے بہتر کہا جاسکتا ہے۔ جس نے برسر اقتدار آنے کے بعد دو بڑے اہم کام کیئے جو تاریخی حیثیت کے حامل ہیں، پہلا کام پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نو اور دوسرا کام محکمہ تعلیم میں اساتذہ بھرتی این ٹی ایس کے ذریعے کرنا ہے۔بد قسمتی سے ہم نے جس معاشرے کو آج تک پروان چڑاھایا ہے وہ سفارشی ہے جس نے ہمیں کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ہے، کسی نے ہمیں مالشی کا لقب دیا تو کسی نے پالشی کا اور یہاں تک کہ ہماری حیثیت کیا ہے اور کون کان سے پکڑ کر اقتدار سے باہر پھینک سکتا ہے یہ طعنے سننے کو ملے، ہمارے اندر ایسی خرابیاں موجود ہیں جو ہم نے دور نہیں کیں اور ہمیں باتیں سننے کو ملیں ۔ اب وقت تقاضا کررہا ہے کہ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، موجودہ دور میں کسی کو فرشتہ نہیں کہا جاسکتا مگر فاروق حیدر کے طر ز سیاست کی حقیقی روح ہمیں فساد سے دور اور اصلاح کی طرف لا رہی ہے۔ اب صرف حکمران جماعت کے نوجوان محکمہ جات کے اندر ایڈجسٹ نہیں ہو رہے بلکہ پڑھے لکھے اہلیت ، صلاحیت کی بنیاد پر نوجوان آگے آرہے ہیں اگر اس میں بخل کرینگے تو یقینا ناانصافی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ فاروق حیدر خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، یقینا جہاں اچھے کام ہو رہے ہوتے ہیں وہاں خرابیاں بھی رہتی ہیں۔ سارے ممبران اسمبلی ایک جیسے نہیں ضروری نہیں جو سوچ فاروق حیدر خان کی ہو وہ دیگر ممبران اسمبلی بھی رکھتے ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کی حکومت وقت نے ہر ممکن کوشش کی تعلیمی پیکیج دیا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایڈجسٹ کیا اس کے باوجود رزلٹ صفر رہا ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اب مرکز کی جانب توجہ دینے لگے ہیں اور یہ خرابیاں ہماری پیدا کردہ ہیں اگر ہم نے پہلے سے ہی میرٹ ، اہلیت اور صلاحیت کو مد نظر رکھا ہوتا تو آج خرابیاں پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔

جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے وقت پی پی کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی جس کی بہت زیادہ مخالفت بحیثیت اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر نے کی ، یقینا یہ درست بھی تھا کہ مظفرآبادمیں رکشے کم اور مشیر زیادہ تھے ۔ صرف پی پی دور میں نہیں اس سے پہلے والی حکمران جماعتوں نے بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ کشمیر لبریشن سیل جیسے ادارے سے بے شمار ایسے لوگ تنخواہ لیتے رہے جن کا تحریک آزادی کشمیر میں کوئی رول نہیں تھا۔ آج اگر فاروق حیدر خان صاحب سابقہ ادوار کی طرح صوابدیدی عہدوں پر بھرتیاں کرنا شروع کردیں تو یقینا اس حکومت میں اور سابقہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ اب لوگوں کا مائنڈ سیٹ بنتا جارہاہے ، لوگ حقیقت پسندی کی طرف آرہے ہیں، بچوں کو بہتر تعلیم بالخصوص پروفیشنل ڈگریاں دلوانے کے خواہشمند ہیں تاکہ ان کے بچے میرٹ پر محکموں میں بھرتی ہوسکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تنقید برائے تنقید کی وجہ سے نوجوان نسل کی درست سمت کا تعین نہیں کیا جاسکتا، تنقید برائے اصلاح کے ذریعے نسل نو کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ تمام سیاستی جماعتوں کو اس میں رول ادا کرنے کی ضرورت ہے اور جماعتوں کے اندر سیاسی تربیتی نشستوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے، کارکنوں کو جماعتی منشور کا علم ہو ، انتخابی منشور کا علم ہو، میرٹ کیا ہے اس کی واقفیت ضروری ہے یہ ایسے پہلو ہیں جو غور ظلب ہیں۔ کسی دور میں بھی کارکن اپنی حکمران جماعت سے خوش نہیں رہا آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا بس مجبوری ،بے بسی یا پھرامید کہہ لیں وہ اپنی حکمران جماعت کیخلاف بغاوت نہیں کرتا۔

پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی بنیاد سے لے کر اب تک بے شمار ایسے کارکن موجود ہیں جن کی خدمات یقینا اِس جماعت کیلئے ناقابل فراموش ہیں اور ایسے کارکن بھی موجود ہیں جو اگر کسی صوابدیدی عہدوں پر ایڈجسٹ کیئے جائیں تو حکومت کی نیک نامی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ مظفرآباد ڈویژن بالخصوص دارالحکومت کی سنجیدہ سیاسی شخصیت ، سابق میئر میونسپل کارپوریشن ، مسلم لیگ ن کے بانیوں میں سے چوہدری منظور احمد کے فرزند چوہدری احسن منظور جو دارالحکومت کا ایک بڑا نام ہیں سیاسی مخالفین بھی ان کی طرز سیاست کے مخالف نہیں ان کی ایڈجسٹمنٹ جماعت اور حکومت کی نیک نامی کاباعث بن سکتی ہے، ایسے بے ضرر لوگ یقینا ہر جماعت کیلئے قابل فخر ہی تصور ہونگے ۔ اسی طرح زاہد القمر خان متحرک سیاسی کارکن ہیں جن کی جماعتی اعتبار سے خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ خواجہ اعظم رسول جو بیرسٹر افتخار گیلانی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں، راجہ امداد علی طارق کی حلقہ دو لچھراٹ میں جماعت کیلئے دو مرتبہ ٹکٹ کی قربانی بھی پارٹی کیلئے بہترین سرمایہ ہے انہیں بھی ایڈجسٹ کیا گیا یقینا حکومت کو اس کا فائدہ ہی ہوگا۔ خواجہ فاروق قادری، شیخ سراج منیر ، ندیم زرگر ، ڈاکٹر میر عبدالواحد، شوکت گنائی ، ندیم پلہاجی ،ملک محکم الدین، اعجاز زرگر ، زمان گجر، میر محمد بشیر ،راجہ ابرار ایڈووکیٹ، راجہ ممتاز خان، صغیر بخاری ، محمد اقبال عباسی ، فرید خان ، خالد سلہریا، راجہ بشارت اظہار خان ،نواز خان نیلم، یوتھ میں فرخ ممتاز ، رفاقت زمان،سجادسلہریا، ارم قریشی یہ ایسے پارٹی کارکن ہیں نام نہ لیا جائے تو یہ بھی ناانصافی ہوگی اور بھی بہت سارے کارکن ہیں جن کی خدمات پارٹی کیلئے لائق تحسین ہیں۔ کالم لکھتے وقت بہت سارے نام ذہن سے اتر گئے ہیں۔ سارے لوگ یقینا ایڈجسٹ نہیں ہوسکتے مگر ان لوگوں کو اہمیت دی جاسکتی ہے جن کے اندر سیاسی خدمات سرانجام دینے کی صلاحیت موجود ہو۔

روایتی سیاست سے ہٹ کر فاروق حیدر کے انقلابی عوام دوست اقدامات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تھی مگر اُ س طرح سے کارکنوں نے کبھی اپنی قیادت کے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی ، لیگی کارکن جس طرح اپوزیشن دور میں اپنی قیادت کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے آج بھی اسکی ضرورت ہے۔ سفارشی کلچر ، برادری ازم جیسے ناسور کو ختم کریں ، اچھے اقدامات کی حوصلہ افزائی ضرور کریں اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ خامیوں کی نشاندہی کریں خواہ مخواہ والا سلسلہ اب ختم ہی کردیا جائے عوام اب روایتی نظام سے ہٹ کر آگے بڑھنا چاہتی ہے لوگوں کو نظریاتی چکروں میں ڈال کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جارہاہے، برادریوں میں الجھایا جارہاہے۔یہ سلسلہ حکومت کرے یا اپوزیشن اسے بند ہونا چاہیے تب جا کر مثالی اسٹیٹ کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

ریاست جموں کشمیر تاریخی اعتبار سے کئی سوسال پرانی تاریخ کی حامل ریاست ہے مگر بدقسمتی سے اس کے ایک حصے پر بھارت نے اپنا جابرانہ قبضہ کررکھا ہے اور کشمیریوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کیلئے ہر حربہ بھی اپنا رہا ہے، آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا قیام ٹوٹی نلکے اور کھمبے کی سیاست کیلئے نہیں بلکہ اسے خاص مقصد کیلئے بنایا گیا تھا میں پُر امید ہوں کہ جس طرح بہترین اقدامات کیئے جارہے ہیں محکمہ جات میں اصلاحات لائی جارہی ہیں سفارشی نظام کا خاتمہ کیا جارہاہے، اسی طرح اسمبلی جس مقصد کیلئے بنائی گئی تھی اس کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے گا، موجودہ دور میں اچھے اقدامات کیئے گئے اسمبلی میں وہ بھی قابل ستائش ہیں۔

جو سیاسی روایت اس وقت حکمران جماعت نے قائم کی ہے یقینا اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنیوالی نسلیں اس حکمران جماعت کی مثالیں دیتی رہیں گی، میری ان ممبران اسمبلی سے گزارش ہے جو اس وقت بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کررہے ہیں اگر وہ بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ نہ بنیں اور اقتدار کو نچلی سطح پرمنتقل ہونے دیا جائے جس سے عوام کا طر ز حکمرانی بہتر ہوگا، بہترین قانون سازی کے ذریعے ہمارے ممبران اسمبلی ریاست جموں و کشمیر کو مثالی اسٹیٹ بنا سکتے ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام پاکستان کیلئے بے پناہ قربانیاں پیش کررہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کیلئے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کریں ۔ بہت سارے غیر مسلم ممالک اسلامی نظام کو اپنا رہے ہیں ہم اپنے نظام سے دور کیوں ہیں، اب سوچنا یہ ہے کہ لوگوں کو اصلاح سے قریب کرنے اور فساد سے دور رکھنے کی سیاست پروان چڑھائیں گے یااہل مغرب کی فن حکومت (سیاست )پر عمل پیرا رہیں گے۔
 

Muhammad Iqbal Meer
About the Author: Muhammad Iqbal Meer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.