پولیس یا ہرکولیس

تھانہ یعنی رشوت کا خزانہ پاکستانی کلچر کا ناسور بن گیا ہے۔ تھانہ کیا ہے ذرا غور فرمائیے :
اسمبلی کے ممبران کی …… ضرورت
حکومت کی …… مضبوطی
غنڈے بد معاشوں کی …… پناہ گاہ
اور عوام کی …… ایذارسانی
اگر بھولے سے کسی علاقے میں امن و امان ہے، چوریاں ڈاکے نہیں پڑتے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ علاقہ تھانے کی مہربانیوں سے محفوط ہے۔میرے دوست نے جس کا مکان تھانے کی بغل میں تھا درخواست دی کہ تھانہ یہاں سے منتقل کیا جائے کیونکہ مجرموں کے شور و غل سے میری نیند میں خلل واقع ہوتا ہے۔ دوسرے مہینے پولیس والوں نے میرے دوست کو کہیں اور منتقل کردیا اور خود اسکے مکان پر قابض ہوگئے۔ جواز یہ پیش کیا کہ تھانہ چھوٹا پڑتا تھا اسکو وسعت دینے کیلئے آپ کے مکان کی ضرورت تھی مگر فکر نہ کریں آپکے مکان کو تھانے میں شامل نہیں کیا بلکہ تھانے کو آپکے مکان میں شامل کیا گیاہے۔
تھانے کے سربراہ کو ایس ایچ او کہتے ہیں۔ ایس ایچ او میں وہ تمام اوصاف موجود ہوتے ہیں جو اس میں ہونے چاہئیں مثلاً ایس ایچ او کے کان بالکل صحیح ہوتے ہیں مگر ضرورت کے وقت وہ اونچا سننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ آپ جب بھی کسی ایس ایچ او سے ملیں گے وہ آپ پر سوالیہ یا اعتراضیہ نگاہ ضرور ڈالے گا۔ بغیر سوچے سمجھے یہ اچھا کام کرلیتے ہیں۔ سوچ کر جو کام کرتے ہیں وہ خراب ہوجاتا ہے وہ اس لئے کہ جس چیز سے سوچا جاتا ہے وہ انکے پاس ہوتی ہی نہیں۔ اکثر ایس ایچ اواتنے گرم مزاج ہوتے ہیں کہ ان سے بات کرتے وقت موسم کا ٹمپریچر دیکھنا پڑتا ہے۔ہر ایس ایچ او اردو میں بولتا ہے، پنجابی میں سنتا ہے اور انگریزی میں خاموش رہتا ہے اس لئے جب وہ چپ ہوتا ہے تو سامنے والا سمجھ جاتا ہے کہ انگریزی بول رہا ہے۔

ایک ایس ایچ او ہمارے دوست ہیں جن کا نام مسٹرآفتاب ہے۔چونکہ ایس ایچ او کے دشمن شہر میں بہت ہوتے ہیں اسلئے انکی بیوی نے آفتاب صاحب سے کہہ دیا ہے کہ آفتاب غروب ہونے سے پہلے گھر آجایا کرو اور وہ صبح شام بیوی کے کہنے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آفتاب صاحب تین مرتبہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہوچکے ہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف تین مرتبہ ہی امتحان دیا تھا۔جب میں پہلی مرتبہ انکے گھر گیا تو میں نے دروازے پر ایک کالا کتا بندھا دیکھا۔ میں نے ہمسائے سے پوچھا یہ کاٹتا تو نہیں؟ ہمسائے نے جواب دیا’’جی، کتا تو بالکل نہیں کاٹتا مگر ڈر آپ کا بجا ہے کیونکہ یہ خود کاٹتے ہیں‘‘جب بھی کوئی ان سے کہتا ’’تم سیاہ کار ہو‘‘ یہ جواب دیتے ’’جی میری کار سیاہ نہیں نیلی ہے‘‘ میں نے ایک دن پوچھا ’’آفتاب صاحب کیا آپکی ساری زندگی حادثات میں گزری ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’جی نہیں ، کار خریدنے سے پہلے میرا کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا‘‘

ایک دن اپنے تعلقات سے کام لیتے ہوئے میرا ایک بہت ضروری اور اہم کام کرادیا۔ میں شکریہ ادا کرنے انکے دولت خانے پہنچا اور کہا ’’بڑا احسان کیا آپ نے میرے اوپر، سمجھ میں نہیں آتا کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں‘‘ انہوں نے مجھے اور میری حالت زار کو غور سے دیکھا پھر بولے ’’ایسے ادا کریں کہ سو سو کے پانچ نوٹ میری ہتھیلی پر رکھ دیں‘‘ میں نے ان کے حسب منشاء شکریہ ادا کیا اور گھر آکر دعا مانگی کہ اے خدا! آئندہ مجھے پولیس کے التفات سے محروم و محفوظ رکھ۔ اس کے بعد سے ہم پولیس والوں سے یوں بھاگنے لگے جیسے کوا غلیل سے یا بکری قصائی سے۔ ہمیں پر کیا موقوف ہم نے کئی پولیس زدہ لوگوں کو دیکھا ہے کہ حالات کے اقتضا سے وہ نیم دلانہ خود کشی پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں جو اختیاری نہیں اضطراری ہوتے ہیں۔

ہم نے تو یہ دیکھا اورپرکھا ہے کہ پولیس کی نوکری اور ماحول ہی ایمان شکن ہوتا ہے۔ ہم ایک صاحب کو جانتے ہیں کہ پولیس میں نوکری سے پہلے وہ خاصے پارسا تھے۔ ان کا ایمان بہت پختہ تھا جو گناہ پروف، عورت پروف، شراب پروف، رشوت پروف اور نہ جانے کیا کیا پروف تھا۔ بلاشبہ نوکری کے بعد بھی انہوں نے اپنے ایمان کو یکجا کئے رکھنے کی کوشش کی تھی مگر رفتہ رفتہ سارے پروف ٹوٹتے چلے گئے۔ چند ہی دنوں میں انہوں نے اپنی زوجہ کو سونے سے لاد دیا۔ ان کی بیش بہا رشوت یعنی بخشش دیکھ کر خاندان کے ہر شوہر کے منہ میں پانی آگیا اور وہ کہنے لگا:۔
یا مجھے گاؤں کا پٹواری بنایا ہوتا
یا ابو ظہبی کا ویزا ہی دلایا ہوتا
نوکری کے لئے ابا نے پڑہایا تھا اگر
کاش پولیس میں بھرتی بھی کرایا ہوتا

ہم نے ایک پولیس والے سے جو اس تھانے کی حدود میں تعینات تھا جہاں مرتضی بھٹو مرحوم کا قتل ہوا تھا پوچھا کہ آخر مرتضی بھٹو کا قتل کیسے ہوگیا جب کہ انکی بہن بے نظیر بھٹو وزیر اعظم جیسے اعلی عہدے پر فائز تھیں؟ اس نے جواب دیا ’’بہر حال جو کچھ بھی ہوا مگر انہیں نہایت احترام و اعزاز کے ساتھ قتل کیا گیا‘‘

پولیس میں چونکہ ہر جگہ قانون شکنی ہے اس لئے پولیس کی نوکری آسان نہیں۔ ویسے بھی پولیس کو عام طور پر عوام دشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ امریکہ تو ہے نہیں جہاں قانون کا اتنا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ اپنے اٹھارہ سال ہونے کا انتظار کرتا ہے تاکہ وہ فلمیں دیکھ سکے جو صرف بالغوں کے لئے ہیں۔ پس جس لمحے اٹھارہ سال کا ہوا بھاگا بھاگا ویڈیو شاپ پر گیا۔

پاکستانی پولیس ملزم کو پکڑنے میں شتابی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ملزم فی الواقع مجرم بھی ہو۔ ایک شخص گھبرایا ہوا تھانے میں داخل ہوا اور تھانے دار سے کہا ’’میری بیوی کا جو زیور گم ہوگیا تھا مل گیا ہے دراصل وہ اسے دراز میں رکھ کر بھول گئی تھی‘‘ تھانے دار نے جواب دیا ’’آپ بہت تاخیر سے آئے، چور نہ صرف پکڑا جاچکا ہے بلکہ اس نے اقرار جرم بھی کرلیا ہے‘‘

صاحب ! شریف لوگ تو ہماری طرح پریشانیوں اور مصائب سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور ڈر کے مارے رپورٹ لکھانے بھی تھانے نہیں جاتے یعنی پولیس کو پولیس نہیں ہر کولیس سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Akhlaq Ahmed Khan
About the Author: Akhlaq Ahmed Khan Read More Articles by Akhlaq Ahmed Khan: 11 Articles with 9258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.