اسلام آباد میں دھرنا، فریقین کی ہٹ دھرمی برقرار، شہری مشکلات کا شکار

حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے اور کوئی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا 19روز سے جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے دھرنا ختم کروانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ دھرنا دینے والی جماعت لبیک یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قائدین کا کہنا ہے کہ جب تک وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا، وہ اس وقت تک دھرنا جاری رکھیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی مذہبی جماعت کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیکی کے کام کو اگر غلط انداز سے کیا جائے تو یہ عمل بھی غلط ہی ہو گا۔ دوسری جانب کراچی میں بھی نمائش چورنگی پرتحریک لبیک یارسول اﷲ کے تحت احتجاجی دھرنا کئی روز سے جاری ہے، جس کے باعث راستے بند ہیں۔ حکومت کی طرف سے پیر سید حسین الدین شاہ کی سربراہی میں تحریک لبیک کی قیادت سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک لبیک اور حکومت کے مابین مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پیر حسین الدین شاہ مذاکرات کو بے نتیجہ چھوڑ کر جنوبی افریقہ روانہ ہوگئے، جہاں وہ ایک ماہ کاقیام کریں گے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دونوں جانب کی ہٹ دھرمی کے بعد نالاں ہوکر وہ جنوبی افریقہ روانہ ہوئے، انہوں نے فریقین پر واضح کردیا تھا کہ جب تک فریقین اپنی اپنی ضد پر قائم رہیں گے اور کسی طرح کی لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تب تک مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ حکومت اور دھرنا دینے والی مذہبی جماعت دونوں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
حکومت کو دھرنا دینے والوں کے معقول مطالبات کو ماننا چاہیے، تاکہ معاملہ جلد از جلد حل ہوسکے اور عوام کو درپیش مشکلات بھی دور ہوجائیں۔ حکومت کو وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے ہٹادینا چاہیے اور دھرنا جماعت کے دیگر معقول مطالبات ماننے چاہیے، لیکن حکومت نہ تو ختم نبوت قانون میں ترمیم کرنے والوں کو بے نقاب کر رہی ہے اور نہ ہی وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے ہٹایا جارہا ہے، جبکہ دھرنا جماعت کامطالبہ ہے کہ ختم نبوت قانون میں ترمیم کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے یا وزیر قانون کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ دوسری جانب تحریک لبیک نے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے اچھا طریقہ نہیں اپنایا ہوا، کیونکہ ان کے دھرنے کی وجہ سے نہ صرف عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی تاثر اچھا نہیں جارہا کہ پاکستان کے دارلحکومت کو چند سو افراد نے مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ دو ہفتوں سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے، جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔ اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کر کے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے، اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شدید پریشان ہیں۔ گزشتہ روز ہسپتال جانے کے لیے راستے مانگنے والے شہری کو شرکاء کی جانب سے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دھرنے کے باعث دارلحکومت کے محکمہ پولیس کو 120 ملین سے زایدکاخر چہ بر داشت کرنا پڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک کیپیٹل پولیس، ایف سی اور پی سی کے اہلکاروں کے کھانوں کا بل 55 ملین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے سیکورٹی اقدامات کے پیش نظر مزید 200 کنٹینروں کو بھی سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے اور ان کا کرایہ 30 ملین روپے سے تجاوزکرچکا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ کرینیں اور 10ٹریلر بھی کنٹینروں کو لے جانے کے لیے کرائے پر حاصل کیے گئے ہیں، جبکہ 19 پانی کے ٹینکر، جن میں 15سے واٹر کینن کو بھرا جاتا ہے اور بقیہ 4 کی مدد سے ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، بھی کرائے پر حاصل کیے گئے ہیں۔ مذہبی جماعت اپنا احتجاج کا حق ضرور استعمال کرے، لیکن اس کے لیے ایسا طریقہ ہرگز نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، لیکن راستے روکنا اور عوام کے لیے مسائل پیدا کرنا کسی طرح بھی قابل تعریف اقدام نہیں ہے۔

اب تو دھرنے والوں کی انتظامیہ کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی خبریں بھی آرہی ہیں، جو بہت ہی افسوسناک ہے۔ میڈیا کے مطابق گزشتہ روز انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے دھرنے کے مقام پر کنٹینرز لگائے جارہے تھے کہ شرکا نے پولیس پر پتھراؤ کردیا جس کے نتیجے میں ایس ایس پی صدر عامر نیازی سمیت 4 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ 25 کارکن بھی گرفتار کرلیے گئے۔ پولیس اور کارکنوں میں اس تصادم کے بعد اضافی نفری بھی طلب کرلی گئی۔ تصادم کے دوران فیض آباد انٹر چینج کے سامنے اسلام آباد ایکسپریس وے اور آئی ایٹ کی جانب زبردست پتھراؤ سے علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے لاٹھی کردیا جس سے کئی مظاہرین بھی زخمی ہوگئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ فیض آباد میں دھرنے کے اسٹیج سے تقاریر کے دوران اچانک مشتعل ہوکر دو اڑھائی سو کارکنوں نے آئی ایٹ کی جانب کھڑی پولیس کی ریزرو پر دھاوا بول دیا اور انہیں اٹھا کر اسٹیج کی جانب لے جانے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے کارکنوں کو پکڑنے کی کوشش کی، جبکہ کارکنوں نے پولیس پر شدید پتھراؤ شروع کردیا، جس سے ایس پی صدر ڈویژن عامر نیازی، ہیڈ کانسٹیبل محمد عارف، کانسٹیبلان پرویز خالد، فیاض، اقبال شاہ اور طلعت اعجاز، جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے آفاق شاہ، عبداﷲ، شہزاد اور غفار زخمی ہوگئے، جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا گیا۔ ایک پولیس اہلکار کی ٹانگ فریکچر ہوگئی۔ ایس ایس پی آپریشنز ساجد کیانی نے بتایا کہ دھرنے کے گرد ہماری فورس شرکائے دھرنا کی سیکورٹی ڈیوٹی بھی انجام دے رہی ہے۔ دوسری جانب فیض آباد دھرنے کے مظاہرین نے دو فوٹو جرنلسٹس پر بھی حملہ کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے کیمرا چھینے کی کوشش بھی کی گئی۔ دونوں صحافیوں پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ پولیس پر حملے کی تصاویر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈان وائٹ اسٹار سے تعلق رکھنے والے محمد عاصم اور روزنامہ جنگ سے تعلق رکھنے والے جہانگیر چوہدری کو اس وقت خوفناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب مظاہرین کے ایک ڈنڈا بردار گروہ نے فیض آباد انٹر چینج پر سیکورٹی پر مامور تقریباً 20 پولیس اہلکاروں کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر جب محمد عاصم اور جہانگیر چوہدری نے واقعے کی تصاویر بنانا شروع کی تو حملہ آوروں کی جانب سے انہیں گھسیٹا گیا اور ان سے قیمتی اشیاء بھی چھینے کی کوشش کی گئی۔ خوش قسمتی سے کچھ بزرگوں نے حملہ آوروں کو کہا کہ وہ کیمرامین کو چھوڑ دیں، لیکن تب ہی جب وہ تصاویرحذف کرنے پر رضا مند ہوں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ راستہ بند کردیا جائے، شخص کی رٹ قائم ہے ریاست کی نہیں، فیض آباد دھرنا پر خرچ ہونے والے خزانے کے ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کر دیں، دھرنے کے علاقے کو سیل کریں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں، ربیع الاول میں کوئی ایسی چیز نہیں چاہتے جو صورتحال کو خراب کرے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت دھرنا میں 1800سے زاید لوگ شریک نہیں ہیں 169 لوگوں کو گرفتار کیا اور 18مقدمات درج ہوئے جب کہ راستہ بند ہونے کے باعث ایک بچہ وفات پا گیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بچے کا وفات پانا معمولی بات نہیں، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، دھرنے والوں کے دل میں یہ صورت سما جاتی تو وہ توبہ کرتے چلے جاتے، ایمبولینس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے، جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو تین روز میں فیض آباد میں دھرنا ختم کرانے کی ایک اور ڈیڈ لائن دے دی۔ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ کوشوکا زنوٹس بھی جاری کر دیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس شوکت صدیقی نے اب تک عدالتی حکم پر علمدرآمد نہ ہونے پرشدید برہمی کا اظہارکیا۔ سیکرٹری داخلہ نے موقف اپنایا کہ ضرورت پیش آنے پر ریاست پوری طاقت کا استعمال کر سکتی ہے، تاہم ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال سے خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ عدالت کے سوال پر چیف کمشنر نے بتایا کہ حکومت نے اقدام اٹھانے سے روکا ہوا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی بولے وزیر داخلہ نے کس اتھارٹی کے تحت عدالتی حکم کے باوجود کاروائی سے روکا؟، وفاقی وزیرداخلہ بلکہ وزیراعظم کا عدالتی حکم کے خلاف جانا سمجھ سے بالا ترہے۔ یہ اقدام عدالت حکم کونیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ عدالت نے احسن اقبال کوشوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو 3 روزمیں فیض آباد خالی کرانے کا حکم دے دیا۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ دھرنے والے لال مسجد اور ماڈل ٹاون جیسا واقعہ ڈھونڈ رہے ہیں یہ لوگ ہمارے لیے لال مسجد کا پھندا لیے کھڑے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ دھرنے کے پیچھے جو مقصد ہے وہ ہمیں معلوم ہے، ختم نبوت کے نام پر منفی سیاست کی جارہی ہے اور دھرنے والے لوگوں کو ورغلا رہے ہیں لیکن ریاست ان لوگوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔ محض ضد اور انا سے کوئی وزیر قانون سے استعفا نہیں لے سکتا اور کنپٹی پر پستول رکھ کر کوئی شرط نہیں منواسکتا تاہم دھرنے والے جائز شکایت پر مذاکرات کریں ہم ان کی بات سنیں گے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر چاہیں تو آپریشن کرکے تین گھنٹوں میں علاقہ کلیئرکرالیں لیکن ہمیں یہ ضمانت کون دے گا کہ معاملہ نہیں پھیلے گا تاہم آئندہ 24گھنٹوں میں دھرنے سے متعلق اہم اعلانات متوقع ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ افواج پاکستان ریاست کا ادارہ ہے اور دھرنے کے سلسلے میں حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر عمل کریں گے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان ریاست کا ادارہ ہے، حکومت وقت نے جب بھی فوج کو بلایا ہے فوج نے ذمہ داری ادا کی ، دھرنے کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوجائے تو بہتر ہے تاہم اس حوالے سے حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر عمل کریں گے۔ سیاسی صورت حال اور سیاست دانوں کے بیانات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سیاست کا اپنا ایک دائرہ کار ہے،سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ جیسا کرتی ہے اسے کرنا چاہیے۔ حکومت نے فیض آباد میں جاری دھرنے کے خلاف سخت کارروائی کے لیے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ان کی سپلائی لائن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انتظامیہ نے فیض آباد جانے والے تمام راستے بند کردیے اور مری روڈ پر مزید کنٹیز لگا دیے۔ کھانے پینے کے اسٹالز کو بھی بند کرنے کے ساتھ فیض آباد پل کے گرد اسٹریٹ لائٹس بھی رات میں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کشیدہ صورتحال کے باعث راولپنڈی اسلام آباد کے ہسپتالوں اور ضلعی انتظامیہ کے اداروں میں ہائی الرٹ ہے۔ پولیس، ایف سی اور رینجرز کے اہلکار فیض آباد میں موجود ہیں۔ دھرنے کے شرکاء کا محاصرہ مزید سخت کرتے ہوئے فیض آباد کی طرف جانے والی رابطہ سڑکیں اور گلیاں کنٹینرز اور رکاوٹیں رکھ کر بند کر دی گئی ہیں، جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 626012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.