گدھا بادشاہ

کہتے ہیں یونان کا مجذوب فلسفی جانسکلبی سر راہ ٹانگیں پھیلائے سو رہا تھا۔ سکندر اعظم کا وہا ں سے گزر ہوا۔ سکند ر نے اسے لات مارکر جگا دیااور کہا ،’’تم کیوں بیکار پڑے ہو؟‘‘کلبی آنکھیں موندتے ہوئے بولا ،’’ تم کون ہو بھئی؟‘‘ ۔ ’’ میں سکندر ہوں ، یونان کا بادشاہ‘‘۔ ’’ لیکن بادشاہوں کاکام راج کرنا ہے، لاتیں گدھے مارتے ہیں۔۔۔۔سمجھ نہیں آتا گدھے کو کس نے بادشاہ بنایا‘‘ ۔۔۔کلبی بڑ بڑایااور کروٹ بدل کر سو گیا۔یہ مسلہ پاکستان کا ہی نہیں۔ دنیا میں کہیں نہ کہیں یہ سر ابھارتا رہتا ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ مسلہ یہ نہیں کہ پارلیمنٹ بالادست ہے یاعدلیہ؟ انتظامیہ بالاتر ہے یا اسٹیبلشمنٹ؟، بیوروکریسی یا این جی اوز؟۔۔۔۔مسلہ یہ ہے کہ ملک کا قانوں کون بناتا ہے، اسے منظوری کون دیتا ہے، اس پر عملدر آمد کرانے کی اتھارٹی کون ہے؟ جنگ اداروں میں نہیں ، اداروں کے نام پر انسانوں کی ہے، انسانوں کی انا کی ہے، ان کی اجارہ داری کی ہے، یہ جنگ اختیارات و اقتدار کی ہے۔بالا دستی اور رعب و دعب کی ہے۔ ہر کوئی مالک کل بننا چا ہتا ہے۔ شایدہر کسی میں آمریت چھپی ہے۔ بظاہر لوگ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، شوریٰ نظام کی علمبرداری کے دعویدار ہیں، صلاح و مشورے سے معاملات نپٹانا چا ہتے ہیں۔ دوسروں کو بھی اعتماد میں لینے کی بات کرتے ہیں۔فراغدلی کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے۔لیکن سچ کیا ہے؟۔ سچ یہ ہے کہ ہر کسی کے اندر آمریت موجود ہے۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ۔ ہر کوئی اپنی حاکمیت میں کسی کو شریک نہیں بنانا چاہتا۔ یاکسی کی حاکمیت کو تسلیم نہں کرتا۔پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ تنطیمیں اور جماعتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہی آمریت ہے۔ من مانی ہے۔ خود کو اعلیٰ و بر تر سمجھنا ہے۔ بڑی بڑی کرسیوں پر بہت چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی اداروں کو توڑتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگ بے دل اور مایوس ہو کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔غیرت یا اکڑ میں اپنی الگ شناخت قائم کر لیتے ہیں۔ اس طرح چند گنے چنے لوگ پورے نظام کو یر غمال بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کے گٹھ جوڑ سے ادارے، جماعتیں بدنام ہوتی ہیں اور ان کے کام کاج پر منفی اثرپڑتا ہے۔ توجہ اصل سے ہٹ کر فروعی معاملات کی جانب مبذول ہونے کا باعث بھی یہی بنتے ہیں۔

غلطی یہ لوگ خود کرتے ہیں اور سزاوار ادارے بنا دئیے جاتے ہیں۔ اس سب کا ذمہ دار صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف ،یعنی با اختیار لوگ ہیں۔ ملک کا سارا نظام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگران کے ہاتھ میں نہیں تو سمجھ لیں کہ یہ نا اہل اور نا سمجھ ہیں ۔ پھر ان کے زیراثر یا زیر سایہ لوگ نظام کو یر غمال بنا رہے ہیں۔ یہ لوگ کٹھ پتلی بن جائیں تو سارا ملک کٹھ پتلی بن اجاتاہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ملک میں بالادستی صرف آئین و قانون کو حاصل ہے۔ کوئی ملکی یا غیر ملکی اس سے بالا تر نہیں۔ کوئی بڑا یا چھوٹا ، امیر یا غریب اس کی زد سے بچ نہیں سکتا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس سے افرا تفری پھیلتی ہے۔ اگر آئین و قانون کے علمبردار ہی اسے توڑنے لگیں تو پھر اس ملک کا خدا حافظ۔ جس ملک میں سزاغریب کو ملے اور امیر دولت کے بل پر بچ جائے، اس ملک کا مستقبل کیاہو سکتا ہے۔ جس ملک میں چند ہزارروپے قرض لینے والوں کو قید کر لیا جائے اور ان کی جائیداد قرق ہوں، اس کے برعکس کروڑوں، اربوں کے قرض معاف کر دئیے جائیں ، اس ملک کے عوام کا مقدر کیا ہو گا۔

سوال سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا نہیں۔ حکومت اپنی عدلیہ یا کسی بھی ادارے سے لڑ نہیں سکتی۔ان میں جنگی ماحول پیداکرنے کا مقصد ملک و قوم سے دشمنی ہو گا۔ ہر کسی کو اپنا اپنا کام کرناہو گا۔ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت جاہل اور نا اہل لوگ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھہیں ملک و قوم کے بجائے اپنا مفاد، مراعات، اختیار، طاقت عزیز ہو گی۔ یہ کم ظرف اور کوتاہ اندیش قوم کے زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ایسااس لئے ہے کہ ان کا کوئی احتساب نہیں کرتا۔ احتساب کے ادارے بھی ملکی خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی مداخلت سے یہ ناکارہ ادارے ہیں۔ یہ کرپشن اور چوری کی سر پرستی کرتے ہیں۔ ان کی پکڑ میں صرف کمزور آتے ہیں۔ اس ملک کے عوام مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی۔ ظالم اس لئے کہ خاموشی اور صبر سے ظلم کو سہہ رہے ہیں۔ اس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتے۔ نیکی اور اچھائی کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون اور غلطی اور برائی کے کاموں میں عدم تعاون ضروری ہے۔ یہ سلسلہ رک جانے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اصل مسلہ نام کا نہیں کام کا ہے۔ بادشاہ گدھے کی طرح لاتیں مارنے لگے تو اسے گدھا کہنے سے کون روک سکتا ہے۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگھم فیض آباد میں جو ہو رہا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہو گا۔ یہ مسلہ افہام و تفھیم سے حل کیا جانا سب کا امتحان ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485054 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More