حلف نامہ ختم نبوت

Written in the perspective of Dharna in Islamabad the article describes its causes and probable effects.

گذشتہ دنوں ملک میں ایک حلف نامے کا خوب چرچا ہوا۔حکومت نے ارادۃً یا سہواًحلف نامہ کے الفاظ میں ایک تبدیلی کردی اور 'میں حلف اُٹھاتا ہوں' کی جگہ ' میں اقرار کرتا ہوں' کے الفاظ لکھ دیے۔ اس غلطی پر سیاسی اور مذہبی طبقوں کی طرف سے اس طرح شور مچایا گیاجیسے کسی گستاخ نے نعوذباللہ قران کی کوئی آیت بدل دی ہے۔ایک ریٹائرڈ میجر صاحب نے تو فوراً خدا بننے کا فیصلہ کرلیا اور بقائمی ہوش و حواس اعلان بھی کردیا کہ وہ نواز شریف کے اس گناہ پر اُنہیں قتل کردیں گے۔ کوئی میجر صاحب سے یہ پوچھے کہ کیا وہ حلف نامہ خدا نے لکھا تھا جس میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ؟حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک انسان کا تیار کردہ حلف نامہ تھا ایک ایسے آمرکا جسے وقت نے فاسق و فاجر ثابت کردیا۔ جس نے اپنی اسلام کے نام پر ایسی ہی غیر اسلامی اور غیر انسانی حرکتوں کے ذریعہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا بیج بو دیا۔ میجر صاحب کا بیان بھی ایک واضح دہشت گردی ہے جس کا حکومت کو فوراً نوٹس لینا چاہیے تھا۔وہ اللہ کے اس ارشاد کو بھول گئے جس میں اللہ نے ہمیں دشمنی میں تمام اخلاقی اور قانونی حدود کو عبور کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے ۔ المائدہ آیت 7
خدا کےاتنے واضح حکم کے باوجود کسی سیاست دان یا مذہبی راہنما نے اس اعلان کی مذمت نہ کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاسی اور مذہبی دونوں طبقات کے اپنےاپنے مفادات ہیں۔ اُنہیں ملک یااسلام سے محبت نہیں ۔اُنہیں صرف اقتدار، دولت اور شان و شوکت سے محبت ہےجس کے لیےوہ ہر اصول اور قانون کو پسِ پشت ڈال سکتے ہیں۔
سیاسی طبقہ نے حلف نامے میں معمولی تبدیلی پرتو شور و غوغا اس لیے کیا کہ اُنہوں نے مخالف پارٹی کو بدنام کرنے اور حکومت گرانے کےہر موقع سے فائدہ اُٹھاناہوتاہے۔ایسے میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خوداُن کا اپنا گریبان کس کس آلودگی سے بھرا ہوا ہے۔
مذہبی طبقہ نے بھی اس موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ اسے ایسا موقع اپنی اہمیت بڑھانے اوراسلام کی خدمت کرنے کے بہانے اَن پڑھ اور معصوم عوام سے پیسے بٹورنے کے لیےچاہیے ہوتا ہے۔ وہ اس موقع کو کس طرح ہاتھ سے جانے دیتے۔ چنانچہ حکومت کی معافی اور حلف نامہ کی سابقہ شکل بحال ہونے کے باوجود وہ ہنگامہ آرائی اور جلسے جلوسوں کی راہ پر گامزن رہے۔ اور یہ سلسلہ تادم ِ تحریر جاری ہے۔ایک معمولی سی غفلت یا غلطی پر اسقدر ہنگامہ آرائی کی اور کیا وجہ ہوسکتی ہےسوائے اس کے کہ سیدھے سادھے عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کے ذاتی مفادات حاصل کئے جائیں ۔ اس کے لیے ایسی ایسی تاویلیں گھڑی گئیں کہ الاماں ۔کبھی کہا گیا کہ اس حلف کو بدل کر نواز شریف پانامہ لیکس کے مقدمہ میں فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔کبھی اسے حکومت اور احمدیوں کا گٹھ جوڑ قرار دیا گیا۔اور کبھی یہ کہا گیا کہ احمدیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس طرح بے شمار مفروضے گھڑے گئے اور بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا گیا ۔خود اپنے اخلاق اور کردار کا تحفظ نہ کرسکنے والے فوراً ہی ختم نبوت کا تحفظ کرنے نکل آئے۔
شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے خدا نے فرمایا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انہیں دی گئی تھی اُس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں، اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں۔۔۔۔ (13
کسی عالم دین ، فلسفی ، دانشور اور سیاست دان نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ"میں حلف اُٹھاتا ہوں' اور ' میں اقرار کرتا ہوں' دونوں جملے باکردار اور بے کردار دونوں قسم کے لوگوں کے لئے بے معنی ہیں۔ باکردار شخص ان الفاظ کونہ دہرانے کے باوجود اپنے منہ سے نکلی ہربات پرہر صورت میں قائم رہے گا چاہے اسے اپنی جان سے ہی ہاتھ نہ دھونے پڑیں۔اسی طرح بے کردار شخص کے نزدیک بھی ان الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ حلف اُٹھا کر بھی مُکر سکتاہے اور اقرارکرکے بھی اپنی بات سے پِھر سکتا ہے۔خود کئی احمدی حضرات نے اس حلف نامہ پر دستخط کرکے اپنے پاسپورٹس پر خودکو مسلمان ظاہر کیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کا یہ فعل اسلام کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اسلام ایسے وقت میں جب انسان کو کھانے کے لیے کوئی حلال چیز میسر نہ ہو سورکا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی حکومت نے انہیں غیر مسلم قرار دے کر انہیں بہت سی جائز اور اسلامی سرگرمیوں سے روک دیا ہے اس لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہیں کہ وہ 'سور کا گوشت' کھالیں۔
یہی نہیں بلکہ ہزاروں مسلمانوں نے کینیڈا ،جرمنی ،ا مریکہ،برطانیہ اور کئی دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لیے جھوٹے حلف نامے داخل کیے۔ خود کو احمدی یا شیعہ ظاہرکیا اور پیسے کمانے کے چکر میں ایمان بیچ دیا۔
کیا ہمارے سیاستدان اور مذہبی طبقہ اس تلخ حقیقت سےآگاہ نہیں کہ ہماری عدالتوں کے باہر بیسیوں پیشہ ور گواہ موجود ہوتے ہیں جو دو چار سو روپے لے کر قران پر جھوٹی گواہی دیتے یا جھوٹی شناخت کرتے ہیں۔ یہ مکروہ عمل اس قدر عام ہوچکا ہے کہ وکیل اور جج صاحبان کے نزدیک اب یہ ایک روزمرہ کا بےضرر معمول ہے۔ وہ ان جھوٹے گواہوں کو پہچاننے کے باوجود روزانہ ان کی گواہیاں قبول کر تے ہیں اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔حیرت ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور مذہبی راہنماؤں نے بھی کبھی اس پریکٹس کی مخالفت نہیں کی ۔ کیا ایک اسلامی مملکت کی عدالتوں میں روزانہ قران یاحلف نامہ پر جھوٹی گواہی دینا گناہ ، جرم ، توہین خدا، توہین ِ رسالت یا توہینِ عدالت نہیں؟وہ جانتے ہیں کہ عدالتوں میں اس طرح دی جانے والی جھوٹی گواہیاں دینا بیک وقت ان تمام جرائم کا مرتکب ہونا ہے ۔لیکن وہ مصلحاتاً خاموش رہتے ہیں کیونکہ انہیں بھی اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسے گواہوں کی ضرور ت پڑتی رہتی ہے۔ پھر ان کے نزدیک یہ اتنا معمولی جرم ہے کہ اس سے حکومت گرائی جاسکتی ہے اور نہ ہی لوگوں کو بیوقوف بنا کر اُن سے پیسے بٹورے جاسکتے ہیں۔ فعل ایک ہی ہے لیکن موقع محل اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات کے مطابق ہی اس پر رد ِعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔
جہاں تک ختم نبوت کے مسئلہ کا تعلق ہے اس پر کوئی مسلمان دو رائے نہیں رکھ سکتا ۔ جب قران نے انحضرت ﷺ کی بعثت اور قران حکیم کے نزول کے ساتھ دین مکمل کردیا اور الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے) کی نوید سنا دی تو اس کے بعد کسی نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قران کی صورت میں ہمارے پاس تعلیم اور اُسوہ حسنہ کی صورت میں عمل موجود ہے۔ اس کے بعد کوئی تیسری شکل غیر ضروری ، ناقابل ِفہم اور ناقابلِ قبول ہے۔
لیکن حیرت کی بات ہے کہ اتنی واضح تعلیمات اور احکامات کے باوجود مرزا غلام احمد صاحب نے نہ صرف بیک وقت نبی، مسیح موعود، مہدی اور مصلح ہونے کا باربار دعوی کیا بلکہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اُن کے اس دعویٰ کو دل سے قبول بھی کرلیا۔ آج وہ ہر سال اربوں روپےکے حساب سے جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے خلیفہ ایک پُر تعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ احمدی افرادکو اس بات کا پورا علم ہے کہ جماعت کے بڑے توزندگی کی ہر سہولت اور عیش کے مزے لے رہے ہیں لیکن اُن کے مبلغ اور مربی حضرات کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں، چندوں کی رقم بڑی بڑی جائدادیں خریدنے پر صرف کی جاتی ہے اور ان چندوں کا جماعت کے ممبران کو کوئی حساب بھی نہیں دیا جاتا، وہ دن رات جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ اور رسول کا حکم ثانوی حیثیت رکھتا ہے لیکن خلیفہ صاحب " جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا اور اپنا مال ، وقت اوراولادقربان کرنے کے لیے ہروقت تیار رہوں گا۔"کے عہد کو جو بچے، جوان، بوڑھے مرد اورخواتین ہر اجلاس سے پہلے کھڑے ہوکر دُہراتے ہیں ،پر پوری طرح عمل پیرا رہتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ جھوٹ پر مبنی ایک جماعت اس قدر تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے؟کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا؟
اگر ہم نے غور کیا ہوتا تو ہمیں انہیں غیر مسلم قرار دینے،قتل کرنے یا ان کے گھر جلانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔اس لیے کہ خود انہوں نے اپنی ہی کتابوں میں اپنے دعوں کےخلاف لاتعداد دلائل دے دیے ہیں۔ ہمارے علمائے دین خاص طور پر محلوں اور دیہاتوں کے مولویوں نے ان کتابوں کو پڑھے بغیر ان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا شروع کردیا ۔اُنہیں واجب القتل قرار دے دیا۔ حوروں اور جنت دوزخ کی جھوٹی کہانیاں گھڑ دیں اور مرزا صاحب کے بارے میں قابل شرم باتیں مشہور کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدی لوگ اپنے مذہب پر مزید پکے ہوگئے ۔خود احمدیوں کی اکثریت نے مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ۔انہیں علم ہی نہیں کہ مرزا صاحب نے ان کتابوں میں کیا گُل کھلائے ہیں۔ لیکن جب وہ مسلمان مولویوں یا نام نہاد علمائے دین سےایسی خرافات اور الزامات سنتے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں تو انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچےہیں۔کیونکہ مولوی کہتا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو احمدی کرنے کے لیے پیسے اور خوبصورت لڑکیاں پیش کرتے ہیں جبکہ وہ ایسا نہیں کرتے ۔ مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں نے ربوہ میں اپنی الگ جنت اور دوز خ بنائی ہوئی ہے جبکہ یہ بھی جھوٹ ہے ۔(ہاں یہ درست ہے کہ انہوں نےبہشتی مقبرے کو پیسے بٹورنے کا ایک بڑاذریعہ بنا لیا ہے۔) مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کا کلمہ مسلمانوں کے کلمہ سےمختلف ہے۔حالانکہ احمدیوں کا کلمہ بھی لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله ہی ہے۔ ان کی نمازیں اور انہیں پڑھنے کاطریقہ بھی وہی ہے جو سنی مسلمانوں کا ہے۔ ایسے ہی روزہ،زکوۃاورحج کےاصول و قوانین بھی سنی مسلمانوں جیسے ہیں۔ لیکن جب ہمارے علما اور مولوی صاحبان عام لوگوں کو احمدیوں سے متنفر کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور بے بنیاد اور بلاثبوت الزامات لگاتے ہیں تو احمدی اپنے مذہب پر مزید پختہ ہوجاتےہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مولوی جو الزامات لگا رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ پرمبنی ہیں۔جاہل مولویوں کے اس طرزِعمل کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مولانامودودی، غلام احمد پرویز اور علامہ برق جیسے جید علمانےاحمدیوں کے جھوٹے دعوں کوغلط ثابت کرنے کے لیےجوتحریریں طویل تحقیق اور ٹھوس دلائل کے ساتھ رقم کی ہیں وہ بھی بے سود اور بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔احمدی حضرات بغیر تحقیق کے اُن کے دلائل کو بھی اسی طرح رَدکر دیتے ہیں جیسے وہ جاہل مولویوں کے جھوٹے الزامات کورَد کرتے ہیں۔
کیا جھوٹ بولنے سے بہتر یہ نہیں تھا کہ ہمارے علما مرزا صاحب کی کتب کو بہ نظر غائر مطالعہ کرتے اور عوام کو درست حوالوں اور دلائل کے ساتھ مرزاصاحب کی دروغ گوئی، بہتان تراشی اور فتنہ انگیز باتوں سے آگاہ کرتے۔احمدیت ایک بہت چھوٹا سامسلہ تھا جسے ہمارے ہی مولویوں اور علما نے اپنی حماقت سے ایک ناقابل شکست قوت بنا دیا۔ مرزا صاحب کی صرف دو چھوٹی چھوٹی کتابوں 'ضمیمہ انجام آتھم' اور 'ایک غلطی کا ازالہ ' ہی احمدیت کو جڑ سے اُکھاڑنےکے لیےکافی تھا۔ 'ضمیمہ انجام آتھم' میں مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰؑ ا ور اپنے مخالف مولویوں کے خلاف اسقدر گندی زبان استعمال کی ہےکہ نبوت کا دعوی کرنے والے کو تو کیا ایک عام انسان کو بھی وہ زیب نہیں دیتی۔اسی طرح ' ایک غلطی کا ازالہ' میں انہوں نے اپنے بارے میں اتنے متضاد دعوے کیے ہیں کہ قاری پوری کتاب پڑھنے کے بعد یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے خود کو نبی کہاہے؟رسول کہا ہے؟ یا سرے سے کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا؟
میں نےاپنے ایک احمدی دوست کے سامنے ان کتابوں کا اور مرزا صاحب کی دریدہ دہنی کاذکر کیا تو ان کا جواب بڑا مضحکہ خیز تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے کے مولوی مرزا صاحب پر اپنے الزامات میں انتہائی گندی زبان استعمال کرتے تھے اس لیے ان کو جواب دینے کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی۔ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللّهِ میں نےکہا کہ جب رسول پاک ﷺکو طائف میں پتھر مارے گئے یا جب گلی میں اُن پر غلاظت پھنکی گئی تو اُنہوں نے ردِ عمل میں وہی طریقہ اختیار کیوں نہ کیاجو مرزا صاحب کرتے رہے؟ اس کے جواب میں میرے احمدی دوست کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس طرح ہم نے نہ صرف مرزا صاحب کے دعویِٰ نبوت کو اُن ہی کی کتابوں سےحوالے اور دلائل دے کو جھوٹا ثابت نہیں کیا بلکہ خود جھوٹے الزامات لگاکر احمدیوں کے احمدیت پر ایمان کو مزیدپختہ اور غیر متزلزل کردیا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں دنیا کی نظروں میں انتہائی معصوم اور مظلوم بنا دیا۔آج دنیا کے تقریباً تمام بڑےممالک انہیں نہ صرف سیاسی پناہ دے رہے ہیں بلکہ انہیں مظلوم سمجھ کر زندگی کے ہرشعبہ میں اُن کی مدد کررہے ہیں۔جماعت احمدیہ کی ترقی کے گراف کاجائزہ لے کر دیکھیں ۔آپ حیران رہ جائیں گے کہ انہوں نےجتنی ترقی 1974 میں غیر مسلم قرار دئیے جانے کے بعد کی وہ انہوں نےاس سے قبل ستر سالوں میں نہیں کی تھی۔ دنیا بھر میں ان کی عبادت گاہوں کی تعداد بڑھی ۔ہم نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کیا تو دنیا بھر سے لاکھوں لوگ ان کے دائرے میں داخل ہوگئے۔ا فریقہ ، امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا میں تووہ اپنے شہر آباد کئے بیٹھے ہیں۔ پنجابی کا محاورہ کہ' کُبے نوں لت وجی تے اوداہ کُب نکل گیا'جماعت احمدیہ پر سو فیصد درست بیٹھتا ہے۔ مولویوں کی زوردار لات نے احمدیوں کا کُب نکال دیا اور اب وہ سیدھے کھڑے ہوکر اتنی تیز رفتار سے دوڑ رہے ہیں کہ ہمارے مولوی دور کھڑےصرف کھسیانی ہنسی ہی ہنس سکتے ہیں۔
ہمارے علما اور مولویوں نے ایساکیوں کیا؟کیوں انہوں نے مرزاصاحب کی کتابوں سے غلط دلائل اور گالی گلوچ کو عوام کے سامنے پُرزور انداز میں پیش نہیں کیا؟ غالباً اس کی دو وجوہات تھیں پہلی یہ کہ ان کی اکثریت نے وہ کتابیں پڑھی ہی نہیں تھیں اور حسب عادت وہ صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے اپنے زہریلے تجزئیے پیش کررہے تھے جیسے وہ اکثر کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال تو بہت ہی واضح ہے ۔ سلمان رُشدی کی کتاب Satanic Verses پر دنیا بھر میں مسلمانوں نے ہنگامے کئے ۔ ان ہنگاموں میں بیسیوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ہزاروں زخمی ہوگئے۔لیکن ہلاک ہونے والے اور ہنگامے کرنے والے تو ایک طرف اُن مولوی حضرات نےجنہوں نے عوام کو ہنگامہ آرائی پر اُکسایا تھا خود وہ کتاب نہیں پڑھی تھی۔یہی صورت حال اس وقت ہوئی جب ڈنمارک کے ایک ملعون آرٹسٹ نے رسول پاک ؐ کے کارٹون بنائے۔ مولوی صاحبان اُنہیں دیکھے بغیر اپنی دکان چمکانے کے لئے باہر نکل آئے ،بے وقوف عوام کے سامنے جذباتی تقریریں کیں اور اپنے ہی ملک کی بسوں اور عمارتوں کو آگ لگوا دی۔ آرٹسٹ صاحب مزے سے اپنے گھر میں بیٹھے یہ تماشہ دیکھتے رہے اور یہاں ہزاروں لوگ اپنے کاروبار ، گھر اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آج پھر وہی کھیل کھیلا جارہاہے ۔ ختم نبوت سے متعلق حلف نامے پر مولوی حضرات وہی حماقت دوہرا رہے ہیں جو اس مسئلہ پر وہ پچھلی ایک صدی سے کرتے آرہے ہیں۔ چھوٹے مولویوں کو اپنا قد اونچا کرنے اوربڑے مولویوں کو پیسے بٹورنے کا موقع تومل جائے گالیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت احمدیہ کوہوگا۔ اسے دنیا کے سامنے خود کو مظلوم و مقہور ثابت کرنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔اس کے افراد کے لیے بڑے بڑے ملکوں میں رہائش اور روزگار کے راستے کُھل جائیں گے۔اور ان کو سچا سمجھتے ہوئے مزید لوگ مرزا صاحب کی نبوت پر یقین کرکے احمدیت کے فروغ کا باعث بن جائیں گے۔اِدھر ہم "ختم نبوت کا تحفظ کریں گے" ، "ختم نبوت ہمارا ایمان ہے"، اور "حرمتِ رسول پر جان بھی قربان ہے" کے نعرےلگاتے ہوئے جلسے جلوسوں سے نکل کر خوش خوش گھرواپس آجائیں گے اور اگلے ہی روز سب کچھ بُھلا کر دوبارہ حرام خوری اور حرام کاری میں مصروف ہوجائیں گے۔

Prof. Mansoor A. Nasir
About the Author: Prof. Mansoor A. Nasir Read More Articles by Prof. Mansoor A. Nasir: 8 Articles with 6749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.