فرشتے کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟

انس وجن کی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن (فرشتوں کی شکل میں) اولاد رکھتا ہے۔ سبحان اللہ! بلکہ (فرشتے تو اللہ کے) بندے ہیں، جنہیں عزت بخشی گئی ہے۔ وہ اُس سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے، اور وہ اُسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ (سورۃ الانبیاء 26 و 27) قرآن وحدیث میں یہ بات بار بار ذکر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مٹی سے، جنات کو آگ سے اور فرشتوں کو نور سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ جو کام اُن کے ذمہ کیا گیا ہے وہ اُسی میں لگے رہتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: اُس (جہنم) پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (سورۃ التحریم 6) فرشتوں کو خالق کائنات نے ایسا بنایا ہے کہ وہ نہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات (آیت 24 سے 27) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے والے مہمانوں کا تذکرہ کیا ہے جو کھانا نہیں کھارہے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُن پر شک وشبہ ہوا۔ بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں اور فرشتوں کی فطرت میں کھانا پینا نہیں ہے۔ اسی طرح فرشتے نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت۔ سورۃ الصافات (آیت 149 سے 151) میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے عقیدہ کی تردید کی ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح نور سے پیدا ہوئی مخلوق یعنی فرشتوں پر بھی ایمان لاناضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقریباً 88 مرتبہ فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ احادیث نبویہ میں بھی فرشتوں کا بارہا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 285میں فرمایا: یہ سب (رسول اور تمام مسلمان) اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ مسلمانوں کی طرح یہود ونصاریٰ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی دیگر آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بھی فرشتوں کا ذکر ملتا ہے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ، جن کو ہم نے بنا دیکھے خالق کائنات تسلیم کیا ہے، اور انس وجن جنہیں اچھے کام کرنے اور برے کام سے رکنے کا مکلف بنایا گیا ہے، کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ایک معصوم مخلوق موجود ہو جو اللہ کے پیغام کو بندوں تک اور بندوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ تک پہنچانے اور جزا کے دن کے لیے پوری زندگی کے ایک ایک لمحہ کے اعمال کو ریکارڈ کرنے اور دنیا کے نظام کو چلانے میں اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذمہ داریاں بحسن خوبی انجام دے۔ حالانکہ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز سے پوری طرح واقف ہے ، اُسے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں فرشتوں کا تصور موجود ہے۔ صرف لامذہب لوگ ہی فرشتوں کے وجود کے منکر ہیں۔ جن کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم ان کو نہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ان کا کہنا غلط ہے، جس کے رد کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بے شمار چیزیں نہ دیکھنے کے باوجود دنیا اُن کو تسلیم کرتی ہے۔ مثلاً عقل دنیا میں کسی بھی شکل میں موجود نہیں ہے لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔

فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی اصل شکل کے علاوہ کسی دوسری شکل میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کبھی کبھی کسی انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس تشریف لاتے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتے۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام تین مرتبہ اپنی اصل صورت میں تشریف لائے تھے۔ ایک نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں، دوسری بار خود حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور تیسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔ حضرت ابراہیم، حضرت مریم اور حضرت لوط علیہم السلام کے قصوں میں بھی قرآن کریم میں مذکور ہے کہ فرشتے انسانی شکل میں اُن کے پاس آئے تھے۔نیز بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی کی شکل میں تشریف لائے تھے جب کہ آپ ﷺ صحابۂ کرام کے درمیان تشریف فرماتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے لوگوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایمان، اسلام اور احسان کے متعلق سوالات کیے تھے۔

فرشتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تمہارے پروردگار کے لشکر کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ (سورۃ المدثر 31) چند فرشتوں کے نام کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں تین جگہ پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کا تذکرہ صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ بعض آیات (مثلاً سورۃ التکویر 20 اور سورۃ النجم 5 و6) میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا تذکرہ اُن کے نا م کے بغیر وارد ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر 98 میں حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام دونوں کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہما السلام کے نام کا تذکرہ تو قرآن کریم میں موجود نہیں ہے، لیکن اُن کی ذمہ داری کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز احادیث اور تاریخی کتابوں میں کثرت سے اِن دونوں فرشتوں کا ذکر موجود ہے۔ جہنم کے داروغہ حضرت مالک کا ذکر سورۃ الزخرف آیت ۷۷ میں ہے: اور وہ (دوزخ کے فرشتہ سے) پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کردے۔ وہ کہے گا کہ تمہیں اسی حال میں رہنا ہے۔ جنت کے خازن کا تذکرہ متعدد احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں ان کا نام رضوان بھی مذکور ہے۔ قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کسی میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو سیاہ رنگ کی نیلی آنکھوں والے فرشتے جنہیں منکر نکیر کہا جاتا ہے آتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں۔ (ترمذی ،باب عذاب القبر) حضرت ہاروت اور حضرت ماروت علیہما السلام کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے: (یہ بنی اسرائیل) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ سورۃ البقرہ 102
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے احکام انبیاء کرام کے پاس لے کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (سورۃ الحج 75) حضرت جبرئیل علیہ السلام کو تمام فرشتوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں کی روزی وروٹی کے انتظام پر مامور ہیں۔ (شعب الایمان) حضرت میکائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے اس ذمہ داری کو انجام دیتے ہیں۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے۔ (مسند احمد) اور حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے لوگوں کی جان نکالنے پر مامور ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے: کہہ دو کہ تمہیں موت کا وہ فرشتہ (ملک الموت) پورا پورا وصول کرلے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تمہیں واپس تمہارے پروردگار کے پاس لے جایا جائے گا۔ (سورۃ السجدہ 11) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کی دربانی پر بے شمار فرشتے متعین فرمائے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جنتی لوگ جب جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو جنت کے محافظ اُن کا استقبال کرتے ہوئے فرمائیں گے ’’سلام ہو آپ پر، آپ لوگ بہت اچھے رہے، اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آجائیے۔‘‘ (سورۃ الزمر 73) اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: ’’یہ دوزخ کے کارندے کوئی اور نہیں، فرشتے مقرر کیے ہیں۔‘‘ سورۃ المدثر 31

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی حفاظت پر بھی فرشتوں کو متعین کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد 11) صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ فرشتوں کی ایک جماعت دن کے وقت انسانوں کی حفاظت پر مامور ہے، اور دوسری جماعت رات کے وقت اُن کی حفاظت کرتی ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ فرشتے مختلف حادثات سے انسانوں کی حفاظت کرتے ہیں، البتہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہی یہ ہو کہ کسی شخص کو کسی تکلیف میں مبتلا کیا جائے تو یہ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے معارف القرآن۔

بعض فرشتے انسان کے اچھے اور برے اعمال لکھتے رہتے ہیں جن کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ اِن فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔ (سورۃ الانفطار 10۔12) نیز فرمانِ الٰہی ہے: اُس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔ انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا ، مگر اُس پر ایک نگران متعین ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔ (سورۃ ق 17 و18

کچھ فرشتے عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اُس کے گرد موجود ہیں، وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ (سورۃ مؤمن 7) اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: فرشتے اُس کے کنارے پر ہوں گے۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ سورۃ الحاقہ 17

کچھ فرشتے دنیا میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو، وعظ ونصیحت ہوتی ہو، قرآن کریم یا دینی علوم پڑھے یا پڑھائے جاتے ہوں ایسی مجلسوں میں وہ حاضر ہوتے ہیں تاکہ جتنے لوگ اس مجلس میں اور اس نیک کام میں شریک ہیں اُن کی شرکت کی اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں۔ دنیا میں جو فرشتے کام کرتے ہیں اُن کی صبح وشام میں تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ نماز فجر کے وقت رات والے فرشتے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور دن میں کام کرنے والے آجاتے ہیں۔ اور عصر کی نمازکے بعد دن والے فرشتے چلے جاتے ہیں ، رات میں کام کرنے والے فرشتے آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس میں بھی مشغول رہتی ہے۔ جس طرح دنیا میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے، اسی طرح آسمانوں پر اللہ کا گھر ہے جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے، اُس کا فرشتوں کی ایک جماعت ہر وقت طواف کرتی رہتی ہے۔ کتب حدیث میں وضاحت موجود ہے۔

خلاصۂ کلام: فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جو آسمانوں اور زمین میں بے شمار کاموں پر مقرر ہیں، یعنی آسمان اور زمین کے انتظامات اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذمہ کر رکھے ہیں اور فرشتے تمام انتظامات اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے احکام کو ابنیاء کرام تک پہنچانا، اللہ کے حکم سے لوگوں کی روزی روٹی اور بارش کا انتظام کرنا، لوگوں کی حفاظت کرنا، انسانوں کے ایک ایک لمحہ کے احوال لکھنا اور آخری وقت آنے پر روح قبض کرنا، قبر میں حساب کتاب کے لیے حاضر ہونا۔ اللہ کے حکم پر صور پھونکنا، جس کے بعد قیامت برپا ہوجائے گی۔ غرضیکہ ہر فرشتہ اپنی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دے رہا ہے۔ بعض فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ فرشتے نہ مرد ہیں اور نہ عورت۔ کھانا پینا اور جنسی کام کرنا اُن کی فطرت میں نہیں ہے۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے۔تمام آسمانی کتابوں میں فرشتوں کا ذکر موجود ہے، اس وجہ سے مسلمانوں کے علاوہ یہودونصاریٰ بھی نور سے بنی اس مخلوق کو مانتے ہیں، دیگر مذاہب میں بھی فرشتوں کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

انس وجن کی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن (فرشتوں کی شکل میں) اولاد رکھتا ہے۔ سبحان اللہ! بلکہ (فرشتے تو اللہ کے) بندے ہیں، جنہیں عزت بخشی گئی ہے۔ وہ اُس سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے، اور وہ اُسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ (سورۃ الانبیاء 26 و 27) قرآن وحدیث میں یہ بات بار بار ذکر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مٹی سے، جنات کو آگ سے اور فرشتوں کو نور سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ جو کام اُن کے ذمہ کیا گیا ہے وہ اُسی میں لگے رہتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: اُس (جہنم) پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (سورۃ التحریم 6) فرشتوں کو خالق کائنات نے ایسا بنایا ہے کہ وہ نہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات (آیت 24 سے 27) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے والے مہمانوں کا تذکرہ کیا ہے جو کھانا نہیں کھارہے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُن پر شک وشبہ ہوا۔ بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں اور فرشتوں کی فطرت میں کھانا پینا نہیں ہے۔ اسی طرح فرشتے نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت۔ سورۃ الصافات (آیت 149 سے 151) میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے عقیدہ کی تردید کی ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح نور سے پیدا ہوئی مخلوق یعنی فرشتوں پر بھی ایمان لاناضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقریباً 88 مرتبہ فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ احادیث نبویہ میں بھی فرشتوں کا بارہا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 285میں فرمایا: یہ سب (رسول اور تمام مسلمان) اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ مسلمانوں کی طرح یہود ونصاریٰ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی دیگر آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بھی فرشتوں کا ذکر ملتا ہے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ، جن کو ہم نے بنا دیکھے خالق کائنات تسلیم کیا ہے، اور انس وجن جنہیں اچھے کام کرنے اور برے کام سے رکنے کا مکلف بنایا گیا ہے، کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ایک معصوم مخلوق موجود ہو جو اللہ کے پیغام کو بندوں تک اور بندوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ تک پہنچانے اور جزا کے دن کے لیے پوری زندگی کے ایک ایک لمحہ کے اعمال کو ریکارڈ کرنے اور دنیا کے نظام کو چلانے میں اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذمہ داریاں بحسن خوبی انجام دے۔ حالانکہ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز سے پوری طرح واقف ہے ، اُسے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل میں فرشتوں کا تصور موجود ہے۔ صرف لامذہب لوگ ہی فرشتوں کے وجود کے منکر ہیں۔ جن کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم ان کو نہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ان کا کہنا غلط ہے، جس کے رد کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بے شمار چیزیں نہ دیکھنے کے باوجود دنیا اُن کو تسلیم کرتی ہے۔ مثلاً عقل دنیا میں کسی بھی شکل میں موجود نہیں ہے لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔

فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی اصل شکل کے علاوہ کسی دوسری شکل میں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کبھی کبھی کسی انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس تشریف لاتے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتے۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام تین مرتبہ اپنی اصل صورت میں تشریف لائے تھے۔ ایک نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں، دوسری بار خود حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور تیسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔ حضرت ابراہیم، حضرت مریم اور حضرت لوط علیہم السلام کے قصوں میں بھی قرآن کریم میں مذکور ہے کہ فرشتے انسانی شکل میں اُن کے پاس آئے تھے۔نیز بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی کی شکل میں تشریف لائے تھے جب کہ آپ ﷺ صحابۂ کرام کے درمیان تشریف فرماتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے لوگوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایمان، اسلام اور احسان کے متعلق سوالات کیے تھے۔

فرشتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تمہارے پروردگار کے لشکر کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ (سورۃ المدثر 31) چند فرشتوں کے نام کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں تین جگہ پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کا تذکرہ صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ بعض آیات (مثلاً سورۃ التکویر 20 اور سورۃ النجم 5 و6) میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا تذکرہ اُن کے نا م کے بغیر وارد ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر 98 میں حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام دونوں کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہما السلام کے نام کا تذکرہ تو قرآن کریم میں موجود نہیں ہے، لیکن اُن کی ذمہ داری کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز احادیث اور تاریخی کتابوں میں کثرت سے اِن دونوں فرشتوں کا ذکر موجود ہے۔ جہنم کے داروغہ حضرت مالک کا ذکر سورۃ الزخرف آیت ۷۷ میں ہے: اور وہ (دوزخ کے فرشتہ سے) پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کردے۔ وہ کہے گا کہ تمہیں اسی حال میں رہنا ہے۔ جنت کے خازن کا تذکرہ متعدد احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں ان کا نام رضوان بھی مذکور ہے۔ قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کسی میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو سیاہ رنگ کی نیلی آنکھوں والے فرشتے جنہیں منکر نکیر کہا جاتا ہے آتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں۔ (ترمذی ،باب عذاب القبر) حضرت ہاروت اور حضرت ماروت علیہما السلام کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے: (یہ بنی اسرائیل) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ سورۃ البقرہ 102
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے احکام انبیاء کرام کے پاس لے کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (سورۃ الحج 75) حضرت جبرئیل علیہ السلام کو تمام فرشتوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں کی روزی وروٹی کے انتظام پر مامور ہیں۔ (شعب الایمان) حضرت میکائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے اس ذمہ داری کو انجام دیتے ہیں۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے۔ (مسند احمد) اور حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے لوگوں کی جان نکالنے پر مامور ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے: کہہ دو کہ تمہیں موت کا وہ فرشتہ (ملک الموت) پورا پورا وصول کرلے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تمہیں واپس تمہارے پروردگار کے پاس لے جایا جائے گا۔ (سورۃ السجدہ 11) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کی دربانی پر بے شمار فرشتے متعین فرمائے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جنتی لوگ جب جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو جنت کے محافظ اُن کا استقبال کرتے ہوئے فرمائیں گے ’’سلام ہو آپ پر، آپ لوگ بہت اچھے رہے، اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آجائیے۔‘‘ (سورۃ الزمر 73) اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: ’’یہ دوزخ کے کارندے کوئی اور نہیں، فرشتے مقرر کیے ہیں۔‘‘ سورۃ المدثر 31

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی حفاظت پر بھی فرشتوں کو متعین کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد 11) صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ فرشتوں کی ایک جماعت دن کے وقت انسانوں کی حفاظت پر مامور ہے، اور دوسری جماعت رات کے وقت اُن کی حفاظت کرتی ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ فرشتے مختلف حادثات سے انسانوں کی حفاظت کرتے ہیں، البتہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہی یہ ہو کہ کسی شخص کو کسی تکلیف میں مبتلا کیا جائے تو یہ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے معارف القرآن۔

بعض فرشتے انسان کے اچھے اور برے اعمال لکھتے رہتے ہیں جن کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ اِن فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔ (سورۃ الانفطار 10۔12) نیز فرمانِ الٰہی ہے: اُس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔ انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا ، مگر اُس پر ایک نگران متعین ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔ (سورۃ ق 17 و18

کچھ فرشتے عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اُس کے گرد موجود ہیں، وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ (سورۃ مؤمن 7) اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: فرشتے اُس کے کنارے پر ہوں گے۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ سورۃ الحاقہ 17

کچھ فرشتے دنیا میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو، وعظ ونصیحت ہوتی ہو، قرآن کریم یا دینی علوم پڑھے یا پڑھائے جاتے ہوں ایسی مجلسوں میں وہ حاضر ہوتے ہیں تاکہ جتنے لوگ اس مجلس میں اور اس نیک کام میں شریک ہیں اُن کی شرکت کی اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں۔ دنیا میں جو فرشتے کام کرتے ہیں اُن کی صبح وشام میں تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ نماز فجر کے وقت رات والے فرشتے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور دن میں کام کرنے والے آجاتے ہیں۔ اور عصر کی نمازکے بعد دن والے فرشتے چلے جاتے ہیں ، رات میں کام کرنے والے فرشتے آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس میں بھی مشغول رہتی ہے۔ جس طرح دنیا میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے، اسی طرح آسمانوں پر اللہ کا گھر ہے جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے، اُس کا فرشتوں کی ایک جماعت ہر وقت طواف کرتی رہتی ہے۔ کتب حدیث میں وضاحت موجود ہے۔

خلاصۂ کلام: فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جو آسمانوں اور زمین میں بے شمار کاموں پر مقرر ہیں، یعنی آسمان اور زمین کے انتظامات اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذمہ کر رکھے ہیں اور فرشتے تمام انتظامات اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے احکام کو ابنیاء کرام تک پہنچانا، اللہ کے حکم سے لوگوں کی روزی روٹی اور بارش کا انتظام کرنا، لوگوں کی حفاظت کرنا، انسانوں کے ایک ایک لمحہ کے احوال لکھنا اور آخری وقت آنے پر روح قبض کرنا، قبر میں حساب کتاب کے لیے حاضر ہونا۔ اللہ کے حکم پر صور پھونکنا، جس کے بعد قیامت برپا ہوجائے گی۔ غرضیکہ ہر فرشتہ اپنی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دے رہا ہے۔ بعض فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ فرشتے نہ مرد ہیں اور نہ عورت۔ کھانا پینا اور جنسی کام کرنا اُن کی فطرت میں نہیں ہے۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے۔تمام آسمانی کتابوں میں فرشتوں کا ذکر موجود ہے، اس وجہ سے مسلمانوں کے علاوہ یہودونصاریٰ بھی نور سے بنی اس مخلوق کو مانتے ہیں، دیگر مذاہب میں بھی فرشتوں کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153582 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.