بیگم -- بے غم

سنتے ہیں محبت سرور بھی ہے اذیت بھی، مٹھاس بھی ہے کڑواہٹ بھی۔مگر ہم عشق کے معاملے میں خود کفیل کبھی نہیں ہوئے، نہ کسی حسینہ نے ہمارے دل کی کبھی بے حرمتی کی۔ یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ عشق ایک جنونی کھیل ہے جس میں دل اور عقل دو حریف کھلاڑی ہوتے ہیں اور نتیجتاً عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں۔تاہم محبت کے اکا دکا واقعات اور جذباتی لمحات ہماری زندگی میں بھی پیش آئے ہیں مثلاً ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ جس کے بدن کا رنگ سنہری تھا جیسے غروب آفتاب کا سارا سونا اس کی جلد پرمل دیاگیا ہو۔ وہ لڑکی شرمانے لگی۔ اس کے لبوں کے خم دار گوشے کانپنے لگے۔ شرم کے شدید احساس سے اس کی گردن خمیدہ ہوگئی جیسے شبنم کے بوجھ سے پھول کی نازک پتی ایک طرف کو جھک جائے ۔ محبت کی ایک دل کش انجانی لہر آئی اور ہمارے دل کے ساحل سے ٹکراکر گزر گئی ۔

پھر ایک خاتون سے ہماری قلمی دوستی ہوگئی۔ ہم نے اسے لکھا کہ ہمیں آپ کے تمام غم مل گئے، بذریعہ پیغام دل۔ وہ خاتون ہم سے ملنے آئی تو ہمارا ارادہ تھا کہ مدعا بیان کریں گے۔ مگر وہ بولتی گئی اور ہم اپنے بولنے کی باری کا انتظار کرتے رہے۔ آپ کو معلوم ہے بولتی عورت کو چپ کرانا کتنا مشکل ہے، جیسے کسی ضدی بچے کو دوائی پلانا۔یوں ہماری محبت کا پہلا اظہار عورت کی زود گوئی کی نذر ہوگیا۔کچھ عرصے بعد اسی خاتون سے ہماری دوبارہ ملاقات ہوئی تو ہم نے بولنے میں پہل کرتے ہوئے ایک ہی سانس میں کئی سوال داغ دئیے:
’’اتنے عرصے سے آپ کہاں تھیں؟کیا ہماری یاد نہیں آئی؟آپ اتنی کم زور کیسے ہوگئیں؟ آپ کے والد صاحب بیرونی دورے سے واپس آگئے؟ آپ نے اپنے بالوں میں جو پھول لگایا ہوا ہے کون سے گملے کا ہے؟‘‘
’’افوہ، آپ ایک وقت میں اتنی ساری باتیں پوچھ رہے ہیں‘‘
’’کوئی بات نہیں آ پ ان میں سے کوئی سے دو سوالوں کے جواب دے دیجئے‘‘
اس کے بعد جب ہمیں ایک لڑکی سے محبت ہونے والی تھی۔ ہم نے اس سے کہہ دیا کہ تم میرے زیورِ محبت کی ’’ہیرا ‘‘ ہو۔ وہ ہم سے ناراض ہوگئی۔ شاید لفظ ہیرا سن کر سمجھی کہ ہمارا اشارہ ’’ہیرا منڈی‘‘ کی طرف ہے۔چند ماہ بعد دوبارہ ملی۔ ہم نے کہا:
’’تم شہر کی سب سے خوب صورت لڑکی ہو‘‘
کہنے لگی ’’میں تم جیسے مکار سے شادی نہیں کرسکتی جو شروع ہی میں اتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہو‘‘ غرض وہ دوبارہ ناراض ہوگئی، اور یہ ناراضگی دائمی تھی۔پس جوانی بھر ہمارے دل میں ارمانوں کا ایک میلہ لگا رہا اور سامنے مجبوریوں کا ایک پہاڑ۔
جب سے دنیا میں شادی، محبت اور ازدواجی رشتے کمرشلائز ہوئے ہیں وہ اوپن مارکیٹ میں آگئے ہیں اور زبردست مقابلہ جاری ہے۔ایک بیوٹی پارلر میں ہم نے یہ اشتہار لگا دیکھا:
buy one get one free
اس اشتہار کی توضیح یہ تھی کہ جس لڑکی کو دلہن بنایا جائے گا اس کی بیٹی کو بھی جب ضرورت پڑے گی مفت دلہن بنادیا جائے گا۔ اس طرح ایک شادی دفتر میں بورڈ چسپاں تھا:
marry one get one free
یعنی ایک عورت سے شادی کریں دوسری فری لے جائیں۔
عورتوں کا خود کو حسین سمجھنا ان کی صنفی خاصیت ہے اور مردوں کا اپنے آپ کو خوب صورت کہلوانا ان کی نسوانی کم زوری ۔ اگرچہ ہم نے متعدد ایسے مکمل مرد بھی دیکھے ہیں جن میں عورتوں کی اچھی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ ایسی مکمل عورتیں بھی ہماری نظر سے گزری ہیں جن میں مردوں کی اچھی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک عورت کی تعریف کرتے ہوئے جب اس سے کہا ’’تمہاری آنکھیں کیا ہیں جھیل ہیں گہری اور نیلی‘‘ تو اس نے فوراً آنکھوں پر کالا چشمہ لگالیا۔ مقابلہ حسن میں بھاری اور موٹی عورت کو قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا یعنی وزنی حسن بے وزن ہوجاتا ہے۔کم وزن حسینہ کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ایک عورت دوسری عورت کی حسن آرائی برداشت نہیں کرسکتی۔ ہماری ایک عزیزہ نے جب کہا ’’دیکھو میں کتنی خوب صورت ہوں۔ سب کہتے ہیں تم ریما کی طرح لگتی ہو‘‘ تو اس کی سہیلی نے نا گواری سے کہا ’’تم ریما کی طرح کیا لگو گی۔ تم توخود اپنی طرح بھی نہیں لگتیں‘‘
حسن کے معاملے میں عورت کی اسی حساسیت کے سبب مقرر حضرات اپنے تقریر میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اگر کوئی مقرر حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے کہے ’’میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں‘‘ تو محفل میں بیٹھی خواتین اپنی صورت کے بارے احساس کم تری کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ازدواجی رشتے آج کل پاکستانی حکومت کی طرح کمزور اور غیر مستحکم ہوگئے ہیں۔ کوشش یہی کرنی چاہئیے کہ گاڑی چلتی رہے جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے کہ کبھی شوہر بیوی کی بات مان لیتا ہے ، کبھی وہ اپنی بات منوالیتی ہے۔لیکن خیال رہے کہ مجبوری کی وہ صورت حال پیدا نہ ہوجائے جیسا کہ ایک مرتبہ امریکہ میں ہوا تھا کہ طلاق کے مقدمے کے دوران جج نے ایک خاتون سے پوچھا تھا:
’’تم کہتے ہو کہ تم دونوں ایک دوسرے کی ضد ہو۔ یہ بتاؤ آج تک تم میں اور تمہارے شوہر میں کبھی اتفاق رائے بھی ہوا ہے؟‘‘
خاتون جو لہریے دار اسکرٹ پہنے تھی، اس نے جواب دیا:
’’ہاں ایک بار جب ہماری رہائشی بلڈنگ میں آگ لگ گئی تھی تو ہم دونوں نے کھڑکی سے اکٹھے باہر کودنے کا فیصلہ کیا‘‘
مغرب میں عورت کار کا ماڈل بدلنے میں دیر لگا سکتی ہے، مگرشوہر بدلنے میں دیر نہیں لگاتی۔ نیویارک میں ایک خاتون نے اپنے بوائے فرینڈ سے کہا:
’’تم یہاں میرا انتظار کرو۔ میں ابھی کپڑے اور شوہر بدل کر واپس آئی‘‘
یورپ میں ایک عورت جلدی جلدی شوہر بدل رہی تھی۔ فی سال دو شوہر ضرور بدلتی۔ معلوم ہوا کسی نجومی نے اس سے کہا ہے کہ تمہارا بارہواں شوہر بھاگوان ثابت ہوگا ۔ پس بارہویں شادی کے بعد تم تمام دکھوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرلو گی۔چنانچہ وہ جلد از جلد بارہویں شوہر کی بیگم بن کر بے غم ہونا چاہتی تھی۔

Akhlaq Ahmed Khan
About the Author: Akhlaq Ahmed Khan Read More Articles by Akhlaq Ahmed Khan: 11 Articles with 9308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.