صفا مروہ کا سفر

طواف کعبہ اور مقام ابراہیم پر نوافل کے بعد اب میں صفا مروہ کی پہاڑی پر آگیا تھا ‘یہ عمرے کا فائنل مرحلہ تھا ۔ طواف کعبہ صحن میں شدید گرمی جلتے سلگتے سورج کے نیچے کر نے کے بعد پیسنے میں شرابوراب یہاں پر ٹھنڈے ٹھار ہال نما لمبے راستے پر تھا دیوانے چاروں طرف پھیلے ہو ئے تھے طواف حجر اسود ملتزم حطیم مقام ابراہیم پر صدیوں کی پیاس بجھانے کے بعد چہروں پر آسودگی طمانیت کا مقدس نو ر پھیلا ئے اب دیوانے یہاں پر سعی کر رہے تھے اب میں بھی سعی کر تا جا رہا تھا اور دروازے سے میں رش کی طرف بڑھا تو اماں ہاجرہ کے دور کی پہا ڑی ڈھونڈنے کی کو شش کی ‘آج سعودی گو رنمنٹ شاندار بلڈنگ اورآنے جانے کے راستے بنا دئیے ہیں‘نرم ملا ئم سنگ مرمر پر ٹھنڈے یخ ٹمپریچر میں سعی کر نا بہت آسان ہو گیا ہے تھوڑی کو شش کے بعد مجھے پرا نی پہا ڑی کے چند آثار نظر آئے اُس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ پر پیا ر بھری نظر ڈال کر میں دیوانوں کے اُس ریلے میں شامل ہو گیا جو اماں ہا جر ہ کی تقلید میں راستے پر بڑھتے چلے جا رہے تھے سنگ مرمر کے ٹھنڈے یخ ہال میں تیز قدموں سے چلتے ہو ئے مجھے بار بار پسینے میں شرابور اماں ہا جرہ نظر آرہی تھیں جو اپنے جگر گو شے کی پیا س بجھا نے کے لیے اِسی راستے پر آگ برساتے سورج کے نیچے دیوانہ وار دوڑی تھیں اماں ہا جرہ کا خیال آتے ہیں چاروں طرف ماں کی آسودگی مہکنے لگی چاروں طرف ممتا کا شفقت بھرا لمس برس رہا تھا جس راستے میں چل رہا تھا اِسی راستے پر جب اماں ہا جرہ آگ برساتے سورج اورنو کیلے پہا ڑوں کی پروا ہ کئے بغیر دوڑی تھی تو پیما نہ رحمت چھلک پڑا تھا اِسی دوران سبز لا ئٹ آگئی یہ وہ جگہ ہے جہاں پر اماں بہت تیز رفتا ری سے دوڑی تھیں سعودی گو نمنٹ نے اُس جگہ پر سبز لا ئٹس لگا دی ہیں دیوانے جیسے ہی اِس جگہ پر پہنچتے ہیں تو تیز دوڑنا شروع کر دیتے ہیں خالق کا ئنا ت کو ماں کا دوڑنا اس قدر اچھا لگا کہ یہاں پر تیز دوڑنا عمرے اور حج کا حصہ بنا دیا اب جب تک یہاں تیز نہیں دوڑتے اُس وقت تک عمرہ حج قبو ل نہیں ہو تا واہ میرے مولا تجھے جو ادا پسند آجا ئے تو دوسروں کو بھی وہی کر نے کا حکم دیتا ہے لہٰذا یہاں پر مردوں کو تیز دوڑنے کا حکم دیاہے لہذا میں نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی ‘گرد ش ایام کا پہیہ آگے پیچھے چلتا رہا اِسی راستے پر سرور کائنات بھی دوڑے ہو نگے خلفا راشدین صحابہ کرام ؓ اور اپنے زمانے کا ہر ولی اِس خیال کے ساتھ ہی میرے جسم میں عقیدت و احترام کے چشمے پھو ٹنے لگے سرور دو جہاں ﷺ کا خیال آتے ہی جسم پر لرزا طا ری کہ اِس جگہ چلنے کے قابل نہیں ہوں لیکن پھر آقا کریم ﷺ کی شفقت کا خیال آیا تو دل کو سکون سا آگیا جب آپ دنیا کا اہم ترین سفر پر سعی کر تے ہیں تو راستے میں جگہ جگہ پر ٹھنڈے آب زم زم کے کو لر نظر آتے ہیں صفا و مروہ کے راستے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بے شمار صفا ئی کے ورکر بھی کھڑے نظر آتے ہیں دیوانے جگہ جگہ کھڑے ہو کر آب زم زم کے جام لنڈھا تے ہیں اپنے جسموں کو آب زم زم سے بھگو تے ہیں رگوں میں آب زم زم کا شیریں پا نی اتا رتے ہیں راستے میں کھڑے ورکروں کو ریال 5ریا ل کا نو ٹ خا موشی سے تھما کر آگے بڑھ جا تے ہیں ۔ اِس ایمان افروز سفر میں آپ کو بے شما ر روح پرور نظا رے دیکھنے کو ملتے ہیں نوجوان بیٹے بھا ئی اپنے والدین بزرگوں کو کندھوں پر اٹھا ئے ویل چیئروں پر بٹھا نے دیوانہ وار دوڑتے نظرا ٓتے ہیں والدین کے منہ سے بار بار دعاؤں کے چشمے پھو ٹتے نظر آتے ہیں یقینایہاں پر مانگی دعائیں لمحوں میں عرش عظیم کا سفر طے کر تی ہو نگی ‘نشہ سرور آپ کی رگوں میں دوڑتا ہے دنیا جہاں سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ آپ ایک ہی راستے پر دیوانہ وار چل رہے ہو تے ہیں دوران سفر آپ بار بار خا نہ کعبہ کا نظا رہ بھی کر تے ہیں خا نہ کعبہ کو آپ کروڑوں بار بھی دیکھ لیں تو آپ کا دل نہیں بھرتا ‘راستے کے آخر پر آپ مڑ کر خانہ کعبہ پر نظرڈال کر دوبار ہ مڑ جا تے ہی آپ جب بھی کعبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے پہلی بار دیکھ رہے ہیں نظر نہ تھکتی ہے نہ ہٹتی ہے آنکھوں کی پیا س بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی اِسی دوران اذان بلالی سے خانہ کعبہ کے درو دیوار مہکنے لگتے ہیں فضا ؤں میں اذان بلال کا ایمان افروز ارتعاش روحوں کو مہکا نے لگتا ہے ۔اذان کی روح پرور آواز دل و دما غ کے اندر تک اترتی ہے آواز کیا سرور نشے کے جھو نکے آپ کی روح کو روشن کر تے چلے جا تے ہیں اور پھر جما عت کے لیے تکبیر کی روح پرور آواز کا نوں سے ٹکڑتی ہے تو دوڑتے قافلے تھم جا تے ہیں ہم اتفاق سے اُس جگہ پر تھے جہاں پر مروہ کے کچھ پتھر فرش میں لگا دیے گئے تھے ہم نے صف بنا نی شروع کر دی میرے ساتھ شائد انڈونیشیا کا کو ئی کمزور سا بو ڑھا تھا اُس نے جا ئے نماز کھو لی اور فرش پر بچھا نے لگا میں اُس کو جا ئے نماز بچھا نے میں مدد کی تو اُس نے جائے نماز اِسطرح بچھا نی کہ ہم دونوں کے ما تھے جا ئے نماز پر آسکیں میں نے مشکور نظروں سے بو ڑھے کی طرف دیکھا تو اُس کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ کا نور پھیل نماز شروع ہو ئی تو امام صاحب کی روح پرور آواز روح کے پرورں کو چھیڑنے لگی قرآنی آیا ت کا نور دل و دما غ کو روشنی کی بھیک دینے لگا رکوع سجدے نشہ مستی سبحان اﷲ نماز کے بعد بو ڑھے نے اپنی بیوی کی ویل چئیر کو پکڑا جس پر وہ بیٹھی تھی وہ بھی بو ڑھی تھی گھنٹوں میں شدید درد کی وجہ سے وہ خو د نہیں چل رہی تھی میں بھی دونوں کے ساتھ ہو گیا اب ہم تینوں صفا مروہ کے درمیان تیز چلنے لگے اچانک مجھے شدت سے پا کستان اپنی ماں یا د آئی تو میں نے بو ڑھے سے وہیل چئیر پکڑلی درخواست کی کہ یہ سعادت مجھے دی جا ئے بو ڑھے نے مسکراتی آنکھوں سے اجازت دے دی اب مجھے دو نیک ترین حا جیوں کا ساتھ مل گیا تھا میں تو گنا ہ گار تھا لیکن یہ دونوں یقینا نیک تھے دونوں میاں بیوی مشکور مسکراتی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے مجھے لگ رہا تھا کہ اِن نیک حا جیوں کاساتھ یقینا میرے لیے بھی با عث افتخار ہو گا ہم چکر پر چکر لگا تے چلے گئے کبھی کبھا را ٓب ز م زم بھی پی لیتے آخر کا ر ہما رے چکر پو رے ہو گئے الوداعی فقروں کے بعد جب میں جا نے لگا تو بو ڑھے نے اپنی جیب میں ہا تھ ڈالا اور چند سعودی ریا ل مجھے دینے کی کو شش کی جو میں نے پکڑ کر اُن کی جیب میں ہی ڈال دیے اور اشاروں سے میں نے کہامیں آپ کے بیٹوں جیسا ہوں مجھے دعاؤں میں یا د رکھیں بو ڑھے نے گرم جو شی سے مجھے گلے لگا یا اور اپنی زبان میں بے شمار دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 653628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.