امیری سے غریبی تک کا سفر

یہ تحریر ایک سچی کہانی ہے اور یہ واقع میری سیر و سیاحت کے دوران پیش آیا۔بہت ہی سبق آموز واقع جو زندگیاں بدل دے گا۔

دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ کےلئے نہیں ۔ آج آپ کے پاس شہرت ہے، دولت ہے اور آپ کے اپنے، آپ کے پاس ہیں۔ کل ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ یا سب کچھ نہ رہے۔

جازان شہر مکہ مکرمہ سے تقریبا ۷۱۵کلومیٹر جنوب مغرب میں یمن کے سرحدی علاقے میں واقع ایک تاریخی شہر ہے۔سیروسیاحت کا شوق رکھنے والوں کےلئے یہ شہر خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے قرت و جوار میں تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل بہت سے جڑواں شہر اور قصبے موجود ہیں۔سعودی عرب میں نقل و حرکت کےلئے بہترین سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے جو کسی بھی شہر تک آسان رسائی ممکن بناتا ہے۔ جازان یونیورسٹی میں لیکچرار کی حثیت سے گزشتہ ۶برسوں میں اس شہر کے گردونواح میں واقع شہرں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔جن میں قابل ذکر شہر ابھا ہے۔ اسکی مقبولیت کی ایک وجہ اس کا خوشگوار موسم اور خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں۔دلکش موسم اور سہانے مناظر کی وجہ سے اسے پاکستان کے تفریحی مقام مری سے مماثلت حاصل ہے۔

ابھا اور جازان شہر کے درمیان ۲۰۰کلومیٹر کافاصلہ باآسانی 2.30گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک دوست ریاض شہر سے تشریف لائے اور ابھا شہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔کامران صاحب گزشتہ ۱۰ سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ جب بھی ریاض جانا ہو کامران صاحب یہ ہمارے میزبان ہوتے ہیں۔اُن کی خواہش کو رد کرنا ممکن نہ تھا۔لہذا نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک اور دوست کو ساتھ لیا اور ہم تینوں دوست ابھا کے لئے روانہ ہو گئے۔ جازان شہر سمندر کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے اگر ہوا نہ چلے توحبس کی وجہ سےگرمی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ہماری گاڑی کا ایئرکنڈیشڈ بھی صحیح کام نہیں کر رہا تھا اس لئےسفر کا آغاز کچھ زیادہ اچھا نہ تھا۔دل ہی دل میں سب کی یہ ہی کیفیت تھی لیکن کسی نے بھی اس کا اظہار نہ کیا اور ہم اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔ ابھا پہاڑکی چوٹی پے واقع ایک خوبصورت تفریحی مقام ہےاسلئے جوں جوں جازان شہر سے دوراور اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے موسم کی خوشگوار تبدیلی ہمارے مزاج میں بھی خوشگوار تمانیت کا احساس لا رہی تھی۔ شام ڈھلے ہی ہم اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے۔ہلکی ہلکی خنکی ،سرسبزوشاداب درختوں کے بیچ وبیچ بل کھا تے، لہراتے راستے ، موسم کی بدلی رت اور جسموں سے ٹکراتی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس شہر میں اجنبیت کا احساس دور دور تک نہ ہونے دے رہے تھے۔

کسی خاص مقام کا تعین کئے بغیر ہی ہم مختلف جگہوں کی سیر کرتے رہے۔اس وقت رات کے ۱۰ بج چکے تھےاور ہم گھومتے گھماتے ابھا کے نوح میں واقع شہر خمیس مشیط پہنچ چکے تھے۔خوشگوار موسم میں ہلکی ہلکی خنکی نے بھوک کی شدت میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ہم نے گاڑی سڑک کنارے روکی اور ایک مقامی شخص سے کسی اچھے پاکستانی ہوٹل کا پوچھا۔مہذب شکل وصورت والے اس معمر شخص کا تعلق پاکستان سے ہی معلوم ہوتا تھا۔جوں ہی اسے احساس ہوا کہ ہم لوگ پاکستانی ہیں اور اس شہر میں اجنبی ہیں توہ وہ فوراًہماری گاڑی کے قریب آگیا اور نہایت پر شفیق انداز میں ہمارا حال احوال پوچھا اور یوں گویا ہوا ’صاحب جی آپ نے اچھا کھانا کھانا ہے یا بڑے ہوٹل میں کھانا ہے‘۔یہ سوال یقیناً ہمارے لئے تھوڑا کنفیوزنگ تھا۔ہمیں تذبذب کا شکا ر دیکھ کر وہ خود ہی اسکا جواب دینے لگا۔ صاحب میرا مطلب ہے کہ یہاں ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بوفیہ (کھوکھا) ہے۔دیکھنے میں تو شاید آپ کو اچھا نہ لگےلیکن کھانا بہت اچھا ہے۔ ہاں اگر کسی بڑے ہوٹل میں جانا ہے تو پھر آپ کو تھوڑا آگے جانا پڑے گا۔

ہم اس نفیس شخص کا شکریہ ادا کر کے آگے چل پڑے۔ میرا ارادہ تو یہی تھا کہ دوست چونکہ دور سے آئے ہیں اس لئے کسی اچھے ہوٹل میں ہی جانا چایئے۔(اچھے ہوٹل کا مطلب تو عموماکسی بڑی سی عمارت میں واقع بیش قیمت فرنیچر سے آرستہ اور جھک کر سلام کرنے والےویٹروںوالا ہوٹل ہی ہوتا ہے)۔ لیکن دوستوں کی رائے یہ تھی کہ چلو آج اسی قریبی تھڑے والے ہوٹل میں چلتے ہیں اگر پسند نا آیا تو آگے نکل جائیں گے۔ سڑک کنارے ہی گاڑی پارک کر کے ہم قریب موجود اس چھوٹے سے ہوٹل تک پہنچ گئے۔ ہوٹل دیکھنے میں واقع ہی کچھ خاص نہیں تھا۔ اس کے صحن میں پڑے پرانے سٹولوں پر ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک انتہائی خوش شکل ادھیڑ عمر شخص ہماری طرف لپکا اور سلام کے بعد بولا صاحب آپ لوگ کیا کھائیں گے۔شائد اس نے ہمیں پتلون قمیض میں دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ ہم غلطی سے ادھر آنکلے ہیں۔اس لئے وہ انتہائی ادب اور خوشگوار انداز میں ہمیں خوش آمدید کر رہا تھا تا کہ کہیں ہم وآپس نہ چلے جائیں۔

اس کی خوش مزاجی نے ہمیں حقیقت میں ہی ادھر رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ ہم اس شہر سے نہیں ہیں اور قریبی شہر جازان سے آئے ہیں تووہ اور بھی اپنائیت سے پیش آنے لگا۔وہ بولا صاحب آپ فکر نہ کریں ۔جگہ کو نہ دیکھیں انشاہ اللہ کھانا آپ کو پسند آئے گا۔

کھانا واقع ہی سادہ مگر انتہائی لذیذ تھا۔ سڑک کنارے ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اور گرما گرم روٹیوں کے ساتھ کھانے کا مزہ دوبالا ہو گیا تھا۔ کھانے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ شخص ہمارے قریب ہی بیٹھ گیا تھا ۔ مجھے وہ شخص بہت بھلا لگا۔وہ کسی اچھے خاندان سے معلوم ہوتا تھا اور عام ویٹر نہیں لگ رہا تھا۔مجھ سے رہا نہ گیا اور اس سے پوچھ ہی لیا۔آپ یہاں کب سے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں۔

میری چٹھی حس نے بلکل ٹھیک الرٹ کیا تھا۔وہ شخص وہ نہ تھا جو وہ نظر آرہا تھا۔ اُسکی آپ بیتی بہت جذباتی تھی۔ وہ بولتا گیا اورمارے جذبات کے ہمارے حلق سے نوالے اُترنا مشکل ہوتے گئے۔

میرا نام جمیل ہے اور میں پاکستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں پراپرٹی کے کاروبار سے تعلق رکھتا تھا اور میرا کاروبار خوب اچھا چلتا تھا۔دولت کی ریل پیل تھی۔ عزت اور شہرت کی کمی نہ تھی ۔میں اپنا کام انتہائی ایمانداری سے کرتا تھا۔ اس لئے غریب سے لے کر امیر سب میری عزت کرتے تھے۔۲۰۰۸ سے۲۰۱۲ تک میرا کام اتنا زیادہ تھا کہ مجھے کبھی بھی اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنے یا کھانا کھانے کا موقع نہ ملتا تھا۔اس دوران میں نے بہت دولت کمائی۔مہنگا ترین گھر بنایا اور اس کی تزین و آرائش کا خاص خیال رکھا۔اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کی۔جوں جوں وہ بول رہا تھا میری دلچسبی بڑھ رہی تھی۔اور تجسس میں بھی اضافہ ہو رہا تھا کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ شخص اپنی فیملی سے ہزاروں میل دور اس چھوٹے سے ڈھابے پر ویٹر کی ملازمت کر رہا تھا۔ وہ اپنی کہانی سناتا گیا اور ہم کھانے سے زیادہ اس کی باتوں کے حصار میں جکڑتے گئے۔

وہ بتا رہا تھا کہ اس تیزی سے پھلتے پھولتے کاروبار کے لئے مجھے ایک ایسے بندے کی تلاش تھی، جو میرے کاروبار میں میری مدد بھی کر سکے اور اعتبار والا بھی ہو۔ میری یہ تلاش جلد ہی ختم ہو گئی اور مجھے اپنی فیملی میں ہی ایک ایسا شخص مل گیا۔اس سے مشورہ کیا اور اپنا ارادہ ظاہر کیا۔معاملات جلد ہی طے پا گئے کیونکہ انھیں نوکری کی تلاش تھی اور مجھے قابل بھروسہ آدمی کی۔

کچھ عرصہ معاملات ٹھیک چلتے رہے مگر جوں جوں وہ کام سیکھتے گئے مجھے اُن کے رویےمیں کچھ تبدیلی محسوس ہوتی گئ لیکن میں نے اپنے شک کو زیادہ اہمیت نہ دی۔پھر وہ دن آ گیا جس کا میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔میرے ساتھی نے میرے نام سے ایک جعلی ڈیل کی اور ایک کشیر معاوضہ لے کر غائب ہو گیا۔ جب تک مجھے علم ہوابہت دیر ہو چکی تھی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں ایک ہی رات میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ (جن کی ہر خواہش میں لمحوں میں پورا کر دیتا تھا) کھلے آسمان کے نیچے سڑک پر آگیا تھا۔میرا کاروبار ، میرا گھر جسے میں نے بہت ہی محنت اور چاہ سے بنایا تھا۔سب کچھ ایک ہی رات میں مجھ سے چھن چکا تھا۔میں ۲۲ دن تک ہسپتال میں رہا۔ یہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میں اپنے حواسوں میں نہ رہا۔مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ کیا کروں۔اس مشکل وقت میں میرے ایک دوست نے میر اہاتھ پکڑا۔وہ کافی سالوں سے سعودی عرب میں مقیم تھے اور محکمہ بجلی میں اچھے عہدے پر کام کر رہے تھے۔اُنھوں نے ایک کمپنی میں میرے لیے باورچی کی نوکری کا بندوبست کر دیا۔میری نوکری جازان کے ریگستانوں میں موجود ایک فیکٹری میں تھی۔مجھے اس تپتے صحرا میں مزدورں کے لئے تین وقت کا کھانا بنانا تھا۔چولہوں کی گرمی اور میرے اندر دھکتی آگ کی تپش مجھے کئی کئی دن تک سونے نہ دیتی تھی۔میں اپنے بچوں سے بات نہ کرتا تھا ۔میں اس قدر بدحواس ہو چکا تھا کہ نعوذ بااللہ کئی بار اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کا وسوسہ آتا لیکن اگلے ہی لمحے میں اس شیطانی وار سے اپنے آپ کو بچا لیتا۔اسی تنہائی میں ،میں نے اپنے اللہ سے ہم کلام ہونا سیکھا۔اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھا اورزندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا رہا۔میں نے ۲۷ ماہ تک اس فیکڑی میں کام کیا اور اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی چھوٹا سا ہوٹل بنا لوں اور زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش جاری رکھوں۔

ہم نے بل ادا کیا اور وہاں سے نکل آئےلیکن بہت دیر تک ہم دوست ایک دوسرے سے گویا نہ ہوئے۔ ہمارے حواس ہماری زبان کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے۔لیکن میرا یقین کامل ہے کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔ہم دنیا کے پیچھے اس طرح بھاگ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے سب کچھ اپنی مٹھی میں بند کر لیں گے اور سب کچھ ہمارا ہو جائے گا۔لیکن حقیقت میں تو کچھ بھی ہمارا نہیں ہے۔یہ سب اللہ کی عطا ہےاور اس کے لئے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔مال ،دولت اور دنیا آج ہمارے پاس ہے تو کل ممکن ہے نہ رہے۔

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Read More Articles by Shakeel Ahmed: 11 Articles with 16109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.