سموگ ․․․․․دُھندلا بادل یا آلودگی؟

قدرت نے انسان کوجن بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے اشجار بھی انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہیں ۔انسان کی بہت سی ضروریات انہی جنگلات کی مرہون ِ منت ہیں ۔اگر یہ جنگلات نہ ہوں تو زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔یہ اشجار ہماری غذائی ضروریات کے علاوہ ایندھن ، غلہ ، پھل ، پھول اور ادویات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جانوروں اور پرندوں کا مسکن بھی ہیں ۔شجر کاری سنت ِ نبوی ؐ اور دینی فریضہ بھی ہے ۔نبی آخری الزماں ؐ نے فرمایا "ـ اگر تم بسترِ مرگ پر بھی ہو اور تمہارے پاس ایک بیج ہو، تو اسے بو دوـ"

آج کی سائنس نے جب یہ ثابت کر دیا ہے کہ اشجار سانس لیتے ہیں اور اس دوران آکسیجن خارج کرتے ہیں ، جس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی ممکن نہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہی اشجار ماحول میں موجود مہلک کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرکے ماحول کو صاف ستھرا اور خوشگوار بھی بناتے ہیں ۔پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی خطرناک ترین صورتحال اختیار کر چکی ہے ۔اس ماحولیاتی آلودگی نے ایک نئی بیماری کو جنم دیا ہے جس نے پچھلے سال 2016 میں لاہور اور اس کے مضافات کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندہ دلان ِ لاہور کو اپنا بندی بنائے رکھا ۔موسم ِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی فضاؤں میں گرد آلود دھند نمودار ہوجاتی ہے جو بارشوں کے برسنے تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے ۔جس سے رومانوی موسم تو خوب بن جاتا ہے لیکن یہ رومانویت اپنے اندر زہر لئے پھرتی ہے ۔ خزاں کے پتوں پر چہل قدمی کے بعد ایسا موسم کسے پسند نہ ہوگا جس میں حد ِ نگاہ کم رہ جاتی ہو اور ہر جانب ہلکی ہلکی ٹھنڈ اوڑھے دھواں پھیلا ہو ۔ ایسا منظر ہر دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی شخص لطف اندوز ہونے کے لئے ان رومانوی لمحات کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ زہریلی فضا سحرطاری کرنے کے بجائے زہر سے ڈسنے لگتی ہے جو صرف مزا ہی کرکرا نہیں کرتی بلکہ سانس ، دمہ، الرجی ، جلدی امراض ،پیٹ اور گردوں کی مختلف بیماریوں کا تحفہ بھی دے جاتی ہے۔ اس دھندلی آلودگی کو "سموگ " کا نام دیا گیا ہے ۔ 2014میں WHO نے سموگ کو زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔ بڑے شہروں میں سالانہ تیس لاکھ لوگ سموگ کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ سموگ 2016 میں اہلیان ِ لاہور کو اپنا شکار بنانے سے پہلے کہیں وجود نہیں رکھتی تھی ۔دنیا کے بڑے میٹروپولیٹن شہروں میں موسم ِ سرما میں سموگ کی شکایات اکثر پائی جاتی ہیں جن میں لندن ، گلاسگو، میکسیکو ، سینٹیاگو، لاس اینجلس ، سین فرانسسکو، کیلیفورنیا نیویارک، بیجنگ ، دہلی اور تہران سر ِ فہرست جبکہ برونائی ، انڈونیشیا ، فلپائن ، ملیشیا ، سنگاپور اور تھائیلینڈکے بڑے شہر بھی سموگ سے محفوظ نہیں ہیں ۔لیکن اس مہلک سموگ سے نمٹنے کے لیے ان ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔چین نے اپنے شہروں کی مختلف جگہوں پر سموگ فری ٹاورز انسٹال کئے جن کا بنیادی مقصدبدترین سموگ کا قلع قمع کرنا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے یہ سموگ یا سیدھے الفاظ میں کہیں تو یہ فضائی آلودگی کہاں دفن تھی ؟ تو جواب سادہ سا ہے کہ باغات کے شہر لاہور کی ہریالی نے اسے اپنے اندر جذب کئے رکھا تھا۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ہم نے جس بے دریغی سے پاکستان اور بالخصوص شہر ِ لاہور میں اشجار کا قتل کیااس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس قتل ِ عام کے نتیجے میں ہمیں فضا کی صفائی کرنے والی اس قدرتی ریفائنری اور اس کے ثمرات سے دوری بلکہ آلودگی کی شکل میں نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں ۔درخت جو کہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد رقبے پر مشتمل ہیں، انہیں بے دردی سے کاٹ دیا جاتا ہے ۔درختوں کی کمی کے باعث زراعت کے پیشہ سے وابسطہ افراد کی بڑی تعداد آج بے روزگاری کا شکار ہے ۔انسان اپنے لئے آسانیاں ڈھونڈنے کی تگ و دو میں اشجار جیسی معصوم مخلوق ِ خدا کا بے خوف و خطر قتل کرتے ہوئے یہ بھول گیا ہے کہ درحقیقت وہ اپنی ہی موت کا سامان کر رہا ہے۔

بدترین سموگ کی دوسری اہم وجہ ڈوویلپمنٹ کے نام پر پورے شہر میں اکھاڑ پچھاڑ کا جو طوفان برپا کیا ہوا ہے ۔۔۔ اﷲ کی پناہ ! جس چوک چوراہے یا گلی میں چلے جائیں زلزلے کے بعد کے مناظر پیش ِ نظر ہیں۔ کہیں اورنج لائن تو کہیں انڈر پاس ، کہیں فضلات کے اخراج کے لئے فضول نالوں کی مرمت کے نام پر کھدائی تو کہیں مٹی کے ٹیلے اور تودے منہ چڑا رہے ہوتے ہیں ۔جس سے فضا مختلف کیمیائی گیسوں اور گردوغبار کی آمیزش سے "معطر" ہوجاتی ہے ۔بندہ پوچھے ساری ڈوولپمنٹ آخری سال ہی یاد آئی ہے ؟

شہروں کی حدود میں فیکٹریوں کی موجودگی سموگ کی تیسری بڑی وجہ ہے ۔ فیکٹری مالکان چند ٹکے بچانے کے لئے غریب عوام کی قیمتی جانوں سے کھیلنے میں قطعا" عار محسوس نہیں کرتے ۔ انڈسٹریز سے اٹھتا دھواں فضا میں آلودگی کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک بھی سموگ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے ۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ محکمہ ء ماحولیات اور موسمیات نے اس ضمن میں پچھلے برس سے سیکھتے ہوئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے بلکہ عوام کو احتیاطی تدابیر تجویز کر دی گئی ہیں ۔جن میں صرف سانس نہ لینے کا حکم ہی صادر نہیں کیا گیا ! سموگ لاہور سے بڑھ کر اب فیصل آباد اور ملتان میں بھی اپنا گھیرا بڑھانے لگا ہے ۔

عاشقوں کو چاہئے کہ وہ اس زہریلے رومانوی فضا میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ دیں ، سادہ لوح عوام کو چاہئے کہ وہ بارشوں کا انتظار کرے تاکہ بادلوں کے برسنے سے فضا میں موجود گرد وغبار واپس خاک میں مل جائے اور بر سرِ اقتدار حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ دوست ملک چین سے سی پیک کے علاوہ سموگ کی روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی بھی برآمد کریں تاکہ عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو ۔

Salman Tariq Butt
About the Author: Salman Tariq Butt Read More Articles by Salman Tariq Butt: 2 Articles with 1334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.