نہلے پہ دہلہ ۔کراچی کی سیاست

سیاست کے بھی کیا رنگ ڈھنگ ہیں، کراچی جس سیاسی کشمکش بعض کا خیال ہے نورا کشتی کی لپیٹ میں ہے اس کے بارے میں صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو کیا پھر قبر میں جاکر ہوش آئے گا۔ اپنے گزشتہ کالم’’ سرد موسم نے کراچی کی سیاست میں کھلبلی مچا دی‘‘ میں دو سیاسی جماعتی اتحاد کو اس لیے ضروری قراردیا تھا کہ یہی اہل کراچی کے لیے جینے کا سہارا ہے، آخرکب تک کراچی سیاسی لوگوں ، سیاسی جماعتوں کے خلفشار، ذاتی ھَو ا و ھَوس اور عیاشی کے بھیڑ چڑھتا رہے گا۔ کراچی وقت کے ساتھ ساتھ کھنڈر بنتا جارہا ہے، بے روزگاری اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے، بھوک سے تنگ ، غربت سے پریشان ہوکر نت نئے جرائم اور واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ کراچی کے سیاست داں ہیں کہ اپنی انا پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دو ماضی کے ہم پیالہ و ہم نوالہ، ایک ہی تھالی میں کھانے والے، ایک ہی سیاسی پنڈت کے ہاتھوں سیاسی تربیت اور پروان چڑھنے والے صرف ایک رات کسی اچھی بات پر متفق نہیں ہوسکتے تو 23سیاست کے کھلاڑی ، بھلا کیسے ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ یہ تو ناریل، اخرونٹ اور لوکی کی دشمنی میں گاجر کا حلوہ بنانے کی ناکام کوشش ہے۔ دوسری جانب حلوہ کھانے کے کھلاڑیوں نے سو جی کے برسوں پرانے حلوے کو پھر سے گرم کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی سیاست میں پھر سے سرگرم عمل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کل کے کالم میں میرا آخری جملہ یہ تھا کہ ’’پرویز مشرف کے حوالے سے کراچی میں اہم کردار ادا کرنے کی خبریں بہت عرصہ سے میڈیا کا حصہ چلی آرہی ہیں اور جنرل صاحب نے اپنے انٹر ویوز میں اس کی تردید بھی کی لیکن کوئی مانے یا نہ مانے کراچی میں قائم ہونے والا دو دھڑوں کا اتحاد ملکی سطح پر بڑے سیاسی اتحاد ، سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور کوئی بعید نہیں کہ اس اتحاد کی کمان سابق کمانڈر کے ہاتھ میں ہی ہو‘‘۔ آج اسلام آباد میں 23سیاسی پہلوانوں نے مل کر سیاسی حلیم کی دیگ چڑھا دی ہے ، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو اس سیاسی دیگ کی غریب و غربا میں تقسیم کا نگرانِ اعلیٰ بنانے کی نوید دی ۔ جنرل صاحب نے ان 23بھانت بھانت کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو خوب خوب شاباش دی اور ان کی کمرتھپ تپائی اور اپنی کمانڈری کی خدمات پیش کرنے اعلان بھی فرمایا۔ اسی اعلان میں جنرل صاحب نے کراچی کی ایک سیاسی جماعت جس کو وہ ماضی میں خوب خوب نواز بھی چکے ہیں اتحاد کی تعریف بھی کی لیکن اس جماعت کی بنیاد یعنی ’’مہاجر ‘‘ کو نہ پسند کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک ایسی جماعت کی قیادت بھلا کیسے کرسکتے ہیں جس کی بنیاد لسانیات پر ہو۔ بات اپنی جگہ جنرل صاحب کی درست ہے کہ کہاں 23سیاسی جماعتوں کی قیادت ، کہاں دو لسانی جماعتوں کی قیادت فرق تو صاف ظاہر ہے۔ البتہ انہوں نے کراچی کی ان دونوں جماعتوں کو 23جماعتی اتحاد میں شامل ہوجانے کی دعوت ضرور دی۔ اب اگر یہ دونوں جماعتیں جنہیں ماضی میں جنرل صاحب کی قربت کا اعزاز حاصل رہا، وہ دونوں کے باہم مل جانے کی باتیں بھی کر چکے اپنے دو رکنی اتحاد جو کہ اب تقریباً ختم ہی ہوچکا جنرل صاحب کے 23رکنی اتحاد میں شریک ہوجاتی ہیں تو 75کم 100سیاسی جماعتوں کا اتحاد عمل میں آجائے گا اور شاید ملک کی تاریخ کا سب سے طویل ترین سیاسی اتحاد ہوگا البتہ اس کی عمرِ عزیز کتنی ہوگی؟ اس کی کارکردگی کیا ہوگی؟ کیا یہ مزید طوالت اختیار کرے گا یا اس کے کچھ پتے سوکھ کر رفتہ فتہ گرتے جائیں گے ،یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

بات ایک رات کے اتحاد کی کر رہا تھا جس کی مثال ایسی ہی ہے کہ دلھن گھر آئی صبح ہوئی دولھا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ طلاق طلاق کہا اور بیچاری گھر واپس ۔ اس غریب نے سسرال کی چھت تو دیکھی سسرال میں سورچ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ یہی حال اس اتحاد کا بھی ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کے سنجیدہ طبقے نے اس اتحاد پر سکھ کا سانس لیا تھا، خوشی منائی تھی کہ چلو ایک ہی گھر کے روٹھے چاربھائیوں میں سے جو زیادہ زہریلے ہیں آپس میں پھر سے مل جل رہے ہیں تو یہ ایک اچھاعمل ہے ۔ان دونوں سیاسی جماعتوں کے منفی اثرات زیادہ تھے، جب کہ مثبت صرف اس قدر کے دو بھائیوں کو اپنے اپنے طور پرسیاسی جماعت کی سربراہی کا اعزاز صاحل ہوچکا تھا ۔ سربراہی تو ان دونوں کے سیاسی استاد کو بھی حاصل تھی غلط راہ پر چل نکلنے، غلط کام کرنے کا انجام ان کے سامنے ہے ۔ اگر انہوں نے اس سے سبق نہ سیکھا اور اُسی ڈگر پر چلتے رہے تو ان کا انجام بھی اپنے سیاسی گرو سے کم برا نہیں ہوگا۔ سیاسی اتحاد بنتے رہے ہیں، چلتے بھی رہے ہیں، انہوں نے اتحاد کیا تو کوئی برا نہیں کیا، ان کے حق میں ان کے لیڈروں کے حق میں، ان کے کارکنوں کے حق میں، اہل کراچی کے حق میں ، ان دونوں کے ووٹر جو اب ہیں یا جو 2018 کے انتخابات میں ہوں گے ان کے حق میں، سب سے بڑھ کر شہر کراچی کے حق میں دونوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔اتحاد کی تفصیل جو بڑے لیڈر نے بیان کیں اس کی وجوہات جو بھی تھیں ، کوئی بھی اپنی کشتی کو ڈوبتے نہیں دیکھ سکتا، چھوٹے نے جو زبان استعمال کی وہ غیر اخلاقی تھی، جس سے آپ اتحاد کرنے جارہے ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے دفن کردیا گیا، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اب جو23رکنی اتحاد بنا پرویز مشرف کی جماعت یہ کہے کہ باقی22سیاسی جماعتوں کے نام کو ان کے جھنڈے کو دفن کردیا جائے تو کیا یہ ممکن ہے ، یہ بات ہر اعتبار سے غیر اخلاقی، غیر قانونی، غیر منطقی ہے۔ چھوٹے کو اس قسم کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ سیاسی اتحاد دو یا زیادہ جماعتوں کے مابین ہوتا ہے۔ اگر یہ اتحاد نہیں تھا بقول چھوٹے کے’ مرجر‘ تھا تو اس کا اعلان واضح طور پر ہونا چاہیے تھا جیسے آج سندھ کے پرانے سیاست داں ممتاش بھٹو نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی جماعت کو پی ٹی آئی میں ضم کردیا۔ کیا پریس کانفرنس میں بڑے نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم اپنی جماعت کو چھوٹے کی جماعت میں ضم کرتے ہیں ، نہیں ، ہر گز نہیں۔ بڑے نے دانشمندی سے کام لیا، جلد ہوش آگیا، قیادت جاتی نظر آئی، جماعت میں پھوٹ پڑتی دکھائی دی، جس نے بھی سچایا، جس نے بھی مشورہ دیا، اس کا خالق کون تھا، بڑا پھر بڑا ہے ، نئی طاقت کے ساتھ ، جوش اور ولولے کے ساتھ، اپنے حلقہ انتخاب والوں کے دلوں میں پھر سے گھر کر گیا۔ جماعت میں نئی روح پھونک دی اور چھوٹا مانے یا نا مانے اس کا ذمہ دار چھوٹا ہی ہے۔گویا چھوٹا نہلہ ہے تو بڑا دہلہ۔(11نومبر2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274816 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More