زلزلہ در زلزلہ

گزشتہ دنوں عالمی میڈیامیں مسعودبارزانی میڈیااسکرینوں پر اپنے طوفانی موقف کی بناء پرمرکزِ توجہ رہے اوران کے بارے میں منقسم آراءنے صورتحال کومزیدالجھادیاہے۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اس شخص نے اپنے حقیقی پروگرام کوظاہر کرنے میں بڑی جلدی کی اور وہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں درست اندازہ لگانے میں ناکام اورغلط وقت کا انتخاب کیا اور بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں،اس کی کردوں کوبھاری قیمت چکاناپڑے گی۔ وہ ایک مسئلے سے بھاگ کردوسری دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ وہ اپنے غیر لچک داررویے کی وجہ سے بالکل اسی طرح محاصرے میں آسکتے ہیں جس طرح مرحوم یاسر عرفات اپنے آخری دنوں میں آگئے تھے۔بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کا قیام مشکلات کے باوجود ایک کرد ریاست کی نسبت آسان ہے۔ ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ کرد خواب کے محافظ ہیں اورکم سے کم ان کی آزادی کے حق کوبحال کردیاگیاہے۔ایک مرتبہ پھرردّعمل نے اس اتفاق رائے کو نمایاں کردیا ہے کہ کردوں کو ان جیلوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جہاں انہیں ایک صدی قبل لے جایا گیا تھا۔

مسعود بارزانی کو کسی ایسے شخص کی ضرورت نہیں ہے جوانہیں جغرافیے کی اہمیت کا احساس دلائے۔وہ اس آگ میں بہت پہلے کود پڑے ہیں۔ وہ ۱۹۴۶ء کے موسم گرما میں جمہوریہ مہاآباد میں پیدا ہوئے اورکردوں نے ایرانی سرزمین پر اس کا اعلان کیا تھا۔ان کے والد ملّا مصطفی اس جمہوریہ میں مسلح افواج کے کمانڈر تھےلیکن یہ اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی معدوم ہوگئی تھی۔ ملّامصطفی اپنے سیکڑوں مسلح جنگجوؤں کے ساتھ شکست خوردہ سرزمین سے چلے گئے تھے۔وہ ایران اور ترکی کے سرحدی محافظوں سے جھڑپوں کے بعد میلوں کا فاصلہ طے کر کے سابق سوویت یونین کی جمہوریہ آرمینیا میں چلے گئے تھے جہاں عراق میں مسعود کو اپنے باپ کی واپسی کا گیارہ سال تک انتظار کرنا پڑا ۔ ان کی عراق میں ۱۹۵۸ء میں انقلاب کے بعد واپسی ہوئی تھی۔

المرارات اسکول سے گریجویٹ مسعود۱۹۷۰ء میں اپنے والد کے ساتھ تھے۔والد نے ان سے بغداد سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان صدام کاخیرمقدم کرنے کو کہا تھا۔اس وقت وہ نائب سربراہِ حکومت تھے۔ان کا یہ دورہ مارچ ۱۹۷۰ء میں ایک بیان پرختم ہواتھاجس میں کردوں کوخودمختاری دے دی گئی تھی تاہم یہ شادی کوئی زیادہ دیرتک چل نہیں سکی ۔۱۹۷۱ءمیں بغداد سے تعلق رکھنے والے ایک وفدکااستقبال کے دوران اچانک ایک خودکش حملے میں بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے لیکن ان کے اور بم کے درمیان چائے پیش کرنے والا حائل ہوگیا جس میں ملّامصطفی بال بال بچ گئے۔کردانقلاب اس وقت دھڑام سے نیچے آگرا جب ۱۹۷۵ء میں شاہِ ایران اورصدام حسین ہنری کسنجر کی کوششوں کے نتیجے میں الجزائرسمجھوتے پردستخط کرکے کردوں کی حمایت سے دست بردار ہو گئے۔اب ملّامصطفی کے انتقال کے بعدمسعود بارزانی کے پاس ایران میں عارضی جلا وطنی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔

گزشتہ صدی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد چار ممالک عراق،ایران،ترکی اورشام کی تقسیم نے کردوں پرایک سخت فیصلہ مسلط کردیاجس کے بعدکرد جغرافیےکی عدالت میں سرگرداں ہیں۔ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ تاریخی فیصلے واپس ہوسکتے ہیں،ان پر نظرثانی اور انہیں درست بھی کیا جاسکتا ہے لیکن جغرافیے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔مذکورہ چاروں ممالک میں بہت سے امور پر اختلافات ہیں لیکن وہ سب ایک آزادکرد ریاست کے قیام کو مسترد کرنے پرمتفق ہیں۔گزشتہ عشروں کے دوران ان ممالک میں کئی حکمران تبدیل ہوچکے ہیں لیکن ان کی کردوں سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ہر چیز ممکن ہے لیکن کردوں کیلئےنہیں۔ اس سے بڑا دوغلا پن کیاہوگاکہ ایک حکمران اپنی پڑوسی ریاست میں کردوں کی حمایت کرکےانہیں اس ملک کے نظام کو کمزور کرنے کیلئےاستعمال توکرتا ہے لیکن وہ اپنے ملک میں کردوں کی زندگیوں میں بہتری کیلئےکبھی سنجیدہ نہیں ۔

رضا شاہ کے دور میں ایران نے صدام حکومت کے خلاف کردوں کی حمایت کی ، پھر انہیں تنہا چھوڑ دیا ۔ خمینی نے ایک مرتبہ پھر عراقی کردوں کی حمایت کی لیکن اب ایران نےانہیں پھر درمیانی راستے میں چھوڑ دیا ہےکیونکہ اب وہ بغداد میں بھرپور طریقے سے موجود اور اس کی فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہیں۔ایران نے ترکی کو کمزور کرنے کیلئےکردستان ورکرز پارٹی کی بھی حمایت کی تھی لیکن خود ایرانی کردوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ۔ حافظ الاسد کے زمانے میں صدام اور دوسری جانب ترکی کو کمزور کرنے کیلئے عراقی کردوں اور عبداللہ عجلان کی جماعت کی حمایت کی لیکن اب پھر شام ان کی حمایت سے دستبردار ہوگیا۔ اب بشار الاسد کردوں کا سامنا کرنے کی تیاری کررہے ہیں جو کوئی آسان کام نہیں ۔برسوں قبل اردگان نے اربیل میں تسلیم کیا کہ کردوں کے وجود کو برقرار رکھنے سے انکار کا وقت گزر چکا لیکن وہ بھی کوئی رورعایت برتنے کو تیار نہیں۔

گزشتہ ربع صدی کے دوران میں مسعود نے انقرہ، بغداد، تہران اور دمشق کو یاددہانی کرانے کی کوشش کی کہ عراقی کردستان کا نمونہ ایسا نہیں کہ اس کو دوسرے ممالک تک پھیلایا جاسکے۔انہوں نے ان ممالک کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں رہنے والے کردوں کی حالت بہتر بنائیں۔ انھوں نے اردگان کی عبداللہ عجلان نام کے قیدی سے مذاکرات کا دروازہ کھولنے کیلئےحوصلہ افزائی کی لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ممالک کردوں کے ایسے کم سے کم مطالبات کو پورا کرنے پر بھی تیار نہیں جن سے ان میں ناانصافی کا احساس ختم ہو۔جب کبھی کوئی کرد لیڈر ’’آزادی‘‘ کا نام لیتا ہے تو جغرافیے کی عدالت بیدار اور وہ کردوں کو سنائے گئے فیصلے کی یاد دہانی کرادیتی ہے۔ایران نے عراقی کردستان کیلئےاپنی پروازیں بند اور کردستان کے سرحدی علاقے میں فوجی مشقیں کرکے جنرل قاسم سلیمانی کو کردوں کو پھر دھمکانے کیلئےبھیجا ہے۔ ترکی کی پارلیمان نے سرحد پار فوج کی کارروائیوں کی مدت میں توسیع کی منظوری دے دی ہے اور مسعود بارزانی سرحد پار ترکی کی مسلح افواج کی مشقوں کی گھن گرج بھی سن رہے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ اب عالمی برادری کردوں کے بجائے بغداد سے ہمدردی کا اظہار کررہی ہے۔ مغربی ممالک اس بات کے خواہاں ہیں کہ داعش کے خلاف جنگ سے توجہ نہ ہٹائی جائےاور آئندہ سال موسم بہار میں عراق میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے قبل حیدرالعبادی کیلئےکسی قسم کے خطرات بھی پیدا نہ ہوں۔مسعود بارزانی کو جغرافیے کی اہمیت باور کرانے کی ضرورت نہیں مگر وہ پیچھے ہٹنے سے انکار کرچکے ہیں کیونکہ انہیں بغداد سے کسی مفاہمت کی کوئی امید نہیں ۔وہ بین الاقوامی ڈاکٹروں سے بھی بہت سے مشورے لے چکے ہیں،شاید وہ کردوں کی نئی نسل کیلئےآزادی کے حق کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ عراق اورمشرقِ وسطیٰ کے اندر موجود عناصر کے درمیان بھی ایک بحران ہے۔فارس اور ترکوں کی اپنی اپنی ریاست ہے اور عربوں کے اپنے اپنے ممالک ہیں تاہم تین کروڑ سے زیادہ کرد کسی ریاست کے بغیر رہ رہے ہیں۔ان حالات میں جب کبھی کوئی کرد لیڈر آزادی کا لفظ بولے گا تو زلزلہ در زلزلہ برپا توہو گا۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.