اب کسے نا خدا کرے کوئی۔

پاکستان کی کشتی ایک بار پھر بھنوروں کی ذد میں ہے اس ڈولتی کشتی کے پتوار کسی مستحکم ہاتھوں میں نہیں رہے حسب ضرورت ہر کوئی آکر اسے تھامتا رہا اور خزانہ لوٹ کر چلتا بنا ۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہم قائداعظم کے بعد اسکو کوئی ایسا ناخدا نہ دے سکے جو اس کو طوفان حوادث سے بچا سکے۔شاید جب سے ہماری شخصی ایمان داری کو زوال آیا ہے.ملک اور قوم بھی اس کا شکار ہو گئی ہے ۔در حقیقت معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اب پاکستان کی نہیں کرسی کی سیاست کا روپ دھار چکی ہے ۔جس میں عام آدمی یعنی عوام کہیں بھی نہیں ہے اب سوال یہ اٹھتا کہ پھر عام آدمی کہاں ہے؟تو آئیے دیکھیں عام آدمی کہاں ہے ۔
تھر میں ایک بار پھر موت کے سائے منڈلانے لگے۔
منشیات فروشی کا دھندہ عروج پہ تین بچوں کا باپ چل بسا۔
پاس ہونا ہے تو شام میں آ کر ملو استاد کی طالبہ سے فرمائش
چھ سالہ بچی اغوا ذیادتی کے بعد۔قتل
غربت سے تنگ آ کر پانچ بچوں کے باپ کی خود کشی۔
خاتون اغوا۔
نوکری نہ ملنے پر نوجوان کی خود کشی
باپ کی بیٹی سے ذیادتی
عوام کو گدھوں اور مردہ مرغیوں کے گوشت کی سپلائی
دن دہاڑے لوٹ مار
چھری مار کے خوف کے سائے خواتین گھروں میں بند رہنے پہ مجبور
سیوریج سسٹم ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں گندگی ۔مچھروں کی افزائش
سب کچھ مہنگا کھائیں کیا؟
جی یہاں ہے عوام باقی جو کرسی کی کشمکش چل رہی اس سے ان عوام کا کوئی واسطہ نہیں کوئی آئے کوئی جائے غریب عوام کے تن خستہ میں درد کے پیوند لگے ہی رہنے کوئی ان کے درد کا درماں نہیں۔
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا۔

سو عوام مرے جارہی اور جیے جا رہی۔کوئی پرسان حال نہیں.سوچ کے در وا کریں اور نظر ڈالیں کہ دوسری جنگ عظیم میں تباہ حال جاپان ۔اس نے کتنی ترقی کی اور آج وہ کس مقام پہ ہے۔ترکی کو ہی دیکھ لیں ۔ہم ہمیشہ سے مغرب سے متاثر ہوئے ہیں ہم ہر چیز میں ان سا ہونا چاہتے لیکن ہم اپناتے ہیں تو ان کے منفی پہلو۔میرں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم سچائی ۔قانون کی عملداری۔ انصاف۔ایمانداری جیسے اوصاف کیوں نہیں اپناتے یہی تو راز زندگانی ہیں جو مغرب نے اسلام سے چرا لیے ہیں اور ہمیں بے ایمانی۔رشوت ستانی۔بے انصافی۔لالچ ۔بغض کی طرف لگا دیا ہے اور ہم اتنے عقلمند کہ ہم نے اس کو اپنا وتیرہ بنا لیا اور معاشرے میں ان برائیوں کے زہر نے اسقدر تعفن پھیلا دیا کہ سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔

معاشرتی اقدار گنوانے کے بعد بھی ہمیں ہوش نہیں آتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں گویا قیامت سے قبل قیامت۔اخبارات اٹھائیں خبریں دیکھیں اور شرم سے منھ چھپائیں اور جان لیں کہ یہ ایسا مقدر ہے جو ہم نے خود اپنے اعمال سے رقم کیا ہے۔ہم دوسرے چینل سے نیوز دیکھتے تو ان کی ترقی کی خبریں کچھ ایجادات کی نیوز اور اپنے چینل آن کریں تو کرسی کا پاگل پن اور گھٹیا سیاست ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے پروگرام بے فائدہ مباحث نرا وقت کا زیاں ۔ہمارے نوجوان خود اپنی مدد آپ سے کچھ ایجاد کر لیتے ایک دفعہ خبر چلتی مگر حکومت کی اپنی رسہ کشی ختم ہو تو ان کو خیال آئے ۔اور ہوتا کیا کہ دوسرا ملک ان نوجوانوں کو مفت تعلیم اور اعلی مواقع کی پیشکش کر کے لے اڑتا ۔کیا یہی ہوتا رہے گا ملک کی عوام ان جاہل حکمرانوں کے ہتھے چڑھی رہے گی ۔یہ سیاست یہ حکمران محض مداری کی ڈگڈگی پہ ناچنے والے بندر ہیں اب مداری کون ہے سب جانتے ان کے بینک بیلنس بھرے جاتے اور عوام مفلوک الحال ۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔کاش ہم عوام یہ سازش سمجھ سکیں اور ان حکومتوں کے دھوکہ دہی کے طلسم سے نکل آئیں اور اسے ناخدا کریں جو واقعی آئین پہ پورا اترنے والا ناخدا ہو ۔ ۔ ۔