پی آئی اے: ترقی سے تنزلی کا سفر…… ذمے دار کون؟

پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا ایک اور طویل درخشاں سفر گزشتہ روز اختتام پذیر ہوا۔ اسلام آباد اور کراچی کے بعد لاہور میں بھی آپریشن بند ہو گیا۔ امریکا کے لیے پاکستان سے پی آئی اے کی آخری پرواز گزشتہ روز واپس وطن آئی اور یوں 56 برسوں پر محیط یہ سفری سلسلہ بھی اختتام کو پہنچا۔ پی آئی اے نے پاکستان اور امریکا کے درمیان 1961ء میں پروازیں شروع کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ براہ راست پروازیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے شکاگو اور نیویارک کو ملاتی تھیں۔ ان روٹس پر پی آئی اے نے کئی سو ارب روپے کمائے، لیکن اب انہی روٹس پر ائیرلائن کو گھاٹے کا سامنا تھا۔ پی آئی اے کراچی اور لاہور سے نیویارک کے لیے ہفتے میں دو پروازیں چلاتی تھی، لیکن 10 سال سے سالانہ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کے نقصان کے باعث اب یہ پروازیں مستقل بند کر دی گئی ہیں۔ پی آئی اے ترجمان کے مطابق اس فیصلے کا مقصد ائیرلائنز کے بڑھتے ہوئے خسارے کو روکنا ہے، جو صرف گزشتہ ایک سال میں 40 ارب روپے تھا، جبکہ اس وقت ائیرلائنز کا کل خسارہ تقریباً 400 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ امریکا کی نئی سیکورٹی پالیسی کے باعث پی آئی اے کو امریکا کے لیے براہ راست پروازوں کی اجازت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے برطانیہ کے مانچسٹر ائیرپورٹ پر ائیرلائن کو اضافی لینڈنگ، مسافروں اور عملے کا قیام اور ٹیک آف کرنا پڑتا تھا، جبکہ طیارے کی مکمل چیکنگ بھی ایک بار پھر ہوتی تھی، جس کے باعث مالی نقصان زیادہ اور مسافر دوسری ائیرلائنز کو ترجیح دینے لگے تھے۔

پاکستان ائیرلائنز اس وقت 28 بین الاقوامی اور 25 ملکی ائیرپورٹس پر آپریٹ کر رہی ہے۔ اکثر اہم بین الاقوامی روٹس پر پہلے براہ راست پروازیں چلائی جاتی تھیں جو پہلے ایک سٹاپ اور پھر انہیں بھی بند کرنے کی نوبت آ پہنچی ہے۔ پی آئی اے نے آپریشنل خسارے سے نجات پانے کے لیے نقصان میں جانے والے روٹس ختم کرکے نئے روٹس پر جانے کے فیصلے کے تحت پہلی پرواز کی بندش اور نئے روٹس کی منظوری لے لی۔ پی آئی اے کے ذرائع کے مطابق گزشتہ سال پی آئی اے کا کل خسارہ 45 ارب اور آپریشنل خسارہ 15 ارب تھا۔ اس مستقل نقصان کے خاتمے کے لیے منافع بخش روٹس بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ خسارے میں جانے والی لاہور نیویارک پرواز کو سب سے پہلے بند کیا جاچکا ہے، جس کی جگہ یورپ، سعودی عرب، چین، مشرق بعید میں پرانے روٹس بحال کرکے پروازیں شروع کی جائیں گی۔ پی آئی اے سعودی عرب کے لیے حج اور عمرہ کی پروازوں میں اضافہ کو ترجیح دے رہی ہے کہ یہ سب سے منافع بخش روٹ ہے۔

ادارے میں انتظامی بحران ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی اور پھر جہازوں کی بری حالت کے باعث پی آئی اے 12 سال سے بھاری مالی خسارے کا شکار ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کہتے ہیں کہ پی آئی اے پچھلے 10، 12 سال سے نقصان میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں وزیراعظم نے پی آئی اے کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور نئے جہازوں کی خریداری کے لیے 16 ارب روپے کا پیکیج دیا، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جہاز پرانے ہونے کی وجہ سے ویٹ لیز اور ڈرائی لیز پر نئے جہاز لیے گئے۔ 34 جہازوں میں سے اس وقت 13 پی آئی اے کے اپنے جہاز ہیں، جبکہ باقی ڈرائی لیز اور ویٹ لیز پر لیے گئے ہیں۔ قومی ایئر لائن کے ایک سنہری دور کے اختتام کی یہ نوبت کیوں آئی، اس کا جواب تلاش کرنا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک منافع بخش ادارہ یوں زوال پذیر ہوا۔ پی آئی اے کے اس زوال کی ذمہ داری کن پر عاید ہوتی ہے، ان کا کھوج لگا کر انہیں کٹہرے میں لا کر کیفر کردار تک کون پہنچائے گا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں نجی ایئر لائنز تو منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں، مگر ایک قومی ایئر لائن کیوں مسلسل خسارے اور بد حالی کا شکار ہوئی۔ماضی کی بہترین ائیرلائنز میں شمار کی جانے والی پی آئی اے کو اس وقت شدید انتظامی اور مالی بحران کا سامنا ہے۔ طیاروں کی کمی کے باعث پی آئی اے کی اندرون ملک پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہوتا ہے جس کے باعث مسافروں کی تعداد میں ہر سال متواتر کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سفارش، سیاست اور میرٹ سے ہٹ کر جس طرح اس ادارے میں اندھا دھند بھرتیاں ہوئیں، اس کے اثاثوں کی لوٹ مار ہوئی، اس کے پرزوں سے لے کر طیاروں تک کو کباڑیوں کے ہاتھ کوڑیوں کے مول فروخت کیا گیا، اس سب کا حساب لینا ہو گا۔ قومی ایئرلائن پی آئی اے جو کبھی اپنے سلوگن ’’ باکمال لوگ لاجواب پرواز‘‘ کا فی الواقع حقیقی مصداق ہوا کرتی تھی۔ ہمارے مقتدر طبقات کی مفاد پرستیوں اور خود غرضیوں کی وجہ سے حالت نزاع میں ہے۔ قومی ایئر لائن کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور منافع بخش قومی ادارہ بنانے کے لیے بھی ٹھوس لائحہ عمل اپنانا ہوگا، تا کہ یہ قومی ادارہ ایک بار پھر باکمال سروس لاجواب پرواز بن سکے۔

پی آئی اے کی موجودہ حالت زار سے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہی پی آئی اے ہے جس نے مشرق وسطیٰ کی بہترین ایئر لائن ’’امارات‘‘ کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کی تھی، جسے اسکائی ٹریکس 2015 کی جانب سے دنیا کی بہترین ایئرلائن ہونے کا اعزاز دیا گیا۔ جہاں امارات کامیابیوں کے افق پر پہنچ چکی ہے تو وہیں پی آئی اے مسلسل زوال سے اپنی شناخت کھو بیٹھی ہے۔ یہی پی آئی اے امریکی شہر نیویارک کے مرکزی گرینڈ سینٹرل سٹیشن کے قریب ایک ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے روزویلٹ ہوٹل سمیت دنیا کے اہم شہروں میں متعدد ہوٹلوں کا مالک ہے۔ روزویلٹ ہوٹل 1979 میں پی آئی اے کی ذیلی کمپنی پی آئی اے انوسیٹمنٹس نے خریدا تھا جس میں ابتدائی طور پر سعودی شہزادے فیصل نے سرمایہ کاری کی تھی۔ پی آئی اے نے بعد میں اس ہوٹل کے 99 فیصد حصص خرید لیے تھے۔ جہاں پی آئی اے میں خسارے کا دور دورہ ہے یہ ان چند منافع بخش سرمایہ کاریوں میں سے ہے جن سے پی آئی اے منافع کماتی ہے۔ پی آئی اے نے اس کے علاوہ 1979 میں لیز پر حاصل کیا جانے والا پیرس کا سکرائب ہوٹل بھی سنہ 2002 میں خرید لیا تھا۔ عام طور پر نقاد گرتے ہوئے منافع، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور بین الاقوامی مقابلے کو پی آئی اے کے بے تحاشہ مالی خساروں کی وجوہات بتاتے ہیں، لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ بحران کی اصل اور واحد جڑ سیاست ہے۔ پچھلے سال عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی آئی، جس سے منافعوں کے بے مثال مواقع پیدا ہوئے، لیکن پی آئی ایسے تاریخی مواقع سے فائدہ نہ اٹھا سکی اور جہاں تک غیر ملکی ایئرلائنز سے مقابلے کی بات ہے، تو زیادہ تر لوگوں کا غیر ملکی ایئر لائنز کو منتخب کرنے کی وجہ ان کی پیش کردہ بے انتہا معیاری سروس ہے۔ اگر پی آئی اے اپنی معیاری سروس کو برقرار رکھتی تو دوسری ایئر لائنز کو زیادہ منافع کمانے کا موقع نہ ملتا۔

پی آئی اے پاکستان کی سیاست کا ایک بہترین اڈہ ہے، جو بدعنوانی اور اقربا پروری کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ بھرتی پالیسی میں اقرباء پروری اور سیاسی سرپرستی کا واضح دخل ہونے کی وجہ سے ایئر لائن تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو اس تباہ کن روایت سے منسلک کیا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے دیہی علاقوں سے نئی بھرتیوں کی حمایت کی۔ ان سیاسی بھرتیوں کا تسلسل دوسری حکومتوں کے ادوار میں بھی جاری رہا۔ جو بھی حکومت تبدیل ہوتی، وہ اپنے بندے لے آتی۔ اس طرح سیاست اور بیوروکریسی ایئر لائن کو نگل چکی اور اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا اور یہی سیاست پی آئی اے کو دنیا کی سب سے زیادہ غیر ضروری عملے کی حامل ایئرلائن بنانے کے ذمہ دار ہیں، جو کہ نااہلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پی آئی اے کے مطابق فضائی کمپنی کے پاس تقریباً پندرہ ہزار ملازمین ہیں اور یہ تعداد فی طیارہ 388 ملازم بنتی ہے، جبکہ دنیا میں ملازمین کی فی طیارہ اچھی شرح سو سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اپنے مفادات کے خاطر اپنے احباب کو عہدوں پر ترقی دینے کے تنگ نظر عمل کی وجہ سے یہ ایئر لائن مؤثر انتظامیہ اور پیشہ وارانہ قیادت سے محروم ہوگئی۔ گزشتہ سالوں میں ایئرلائن کی بحالی پالیسی سازوں کے لیے ایک متنازع چیلنج رہا ہے۔ بہت سی حکومتوں نے قومی ایئر لائن میں اصلاح کے وعدے کیے، لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جب سے مسلم لیگ ن حکومت میں آئی ہے، اس کے نزیک نجکاری اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ اس نے پی آئی کو بہتر بنانے کی بجائے ہمیشہ اس کی نجکاری پر زور دیا۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم کے مشیربرائے ہوابازی سردارمہتاب نے کہا تھا کہ پی آئی اے 400 ارب کے مالی خسارے سے ٹائی ٹینک بن چکا ہے ۔ قومی ایئر لائن کی تباہی کا عملہ اور مختلف ادوار کی حکومتیں ذمے دار ہیں۔یہ سچ ہے وفاقی حکومت ایوی ایشن ڈویژن اور نان پروفیشنل قیادت پی آئی اے کو اس حالت میں لائے ہیں۔ بار بار مسائل کی نشاندہی کی جاتی رہی، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایسا محسوس ہوتا رہا کہ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھی گئیں اور پی آئی اے کے طیارے بھی مسائل سے دوچار ہوتے گئے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پی آئی اے کو عالمی سطح پر بدنام کیا گیا۔ اس کے طیاروں میں ہیروئن اور منشیات رکھی جاتی رہی۔ اس کی پروازوں کو حادثات سے دوچار کرایا گیا۔ اس کی پروازوں کا شیڈول متاثر کیاگیا۔ اس کے تاخیری مسائل کی سے مسافر بھی ضائع ہوتے گئے اور نقصان بھی ہوتا رہا۔ اس پر ملازمین کی فوج ظفر موج لادی گئی، جس نے بھاری پیکجز اور مراعات حاصل کرکے اس ایئر لائن پر فنانشل بوجھ بڑھا دیا۔ اس کی انکم روز بروز کم اور اخراجات زیادہ ہوتے گئے اس کے تجربہ کا ر پائلٹس اور ملازمین کو تنگ کیا گیا۔ پسند نا پسند میرتقرریاں کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑائیں گئیں۔ تجربہ کار ذہن اور قابل ایک ایک کرکے ائیر لائن چھوڑتے گئے۔ کسی نے اس کو بہتر کرنے کی ٹھان لی تو اس کے خلاف سارے مفاد پرست اکٹھے ہوگئے اور اس کا جینا محال کردیا۔ پی آئی اے کو پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح انتظامی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور من پسند بنیادوں پر مقرر ملازمین کو فوراً نکالنا چاہیے، جو کہ ایئر لائن کی افرادی قوت کا غیر متناسب حصہ ہیں۔ بحالی کے لیے سیاست سے آزادی اور میرٹ کی بالادستی انتہائی اہم ہیں۔ پالیسی سازوں کو ایمانداری اور سنجیدگی سے ان بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ نجکاری جیسی تباہ کن بحث میں پڑا جائے۔ دلیرانہ اور فیصلہ کن اقدام کا یہی وقت ہے۔ ہمیں پی آئی اے کو فی الوقت اپنی غرض اور بیرونی دباؤ سے بالاتر رکھنا ہوگا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.