حضرت بلال ؓ بن رباح

حضرت ابوعبداﷲ بلالؓ کا شمار دربارِ رسالت ﷺ کے ان عظیم المرتبت ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا اسم گرامی سُن کر ہر مسلمان کی گردن فرطِ احترام و عقیدت سے جُھک جاتی ہے۔آپؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ ماجدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپؓ کے والدین غلام تھے۔ والد اُمیہ بن خلف کا غلام تھا اور والدہ حبشہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو ابرہہ کے بیت اﷲ پر حملہ آور ہونے کی مہم میں شریک تھیں۔جب اصحابِ الفیل کا لشکر عبرت آموز شکست سے دوچار ہوا تو شہزادی لونڈی بن گئی اور بعد میں ایک غلام کی شریکِ حیات بنی۔اسی غلامی کی حالت میں بعثت سے تقریباً آٹھائیس برس پہلے ایک بچے نے جنم لیا جس کو تاریخ بلال حبشی ؓ کے نام سے جانتی ہے۔بقول اقبالؒ۔
چمک اٹھا جو ستار ہ تیرے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

آپؓ کا شمار السابقون الاولون کی اس جماعت میں ہوتا ہے جنہوں نے بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ نورنبوتﷺ سے فیض یاب ہونے کے بعد ایک حبشی غلام کو وہ مرتبہ و مقام عطا ہوا جس کی صدائے اﷲ اکبر پر شاہ و گدا اور امیر و غریب لبیک کہتے ہیں۔اقبالؒ اس حقیقت یوں بیان کرتا ہے۔
لیکن بلال ؓ و ہ حبشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستینر
جس کا امین ازل سے ہوا سینۂ بلالؓ
محکوم اس صدا کے ہیں شہنشاہ و فقر

اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے مگر آپؓ نے تمام مصائب و الام کو فولادی چٹان بن کر برداشت کیا۔یہی وجہ تھی کہ اﷲ کی راہ میں ہر مصیبت حقیر اور اذیت ہیچ معلوم ہوتی تھی۔اُن کے آقا اُمیہ بن خلف نے آپؓ پر جوروستم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا تھا۔ مکہ کی تپتی زمین ’’حرہ‘‘ میں دوپہر کے وقت لے جاتااور دھوپ میں تانبے کی طرح گرم ریت پر لٹا کر بھاری پتھر سینے پر رکھ دیتا تا کہ جسم ہل نہ سکے۔پھر کہتا کہ آپ ﷺ کی پیروی سے باز آجاؤاور لات و عزیٰ کے معبود برحق ہونے کا اقرار کر لو، ورنہ اسی طرح پڑے رہو گے۔ مگر آپؓ کی زبان پر احد احد کا نغمہ ہوتا۔ اُمیہ بن خلف غضب ناک ہوکر زدوکوب کرنا شروع کردیتا لیکن آپؓ کلمہ توحید پر ڈٹے رہتے۔یہی بے پناہ استقامت اور ثابت قدمی وہ امتیازی خوبی تھی جس نے علامہ محمد اقبالؒ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے اک دم کے لئے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لئے

سیدنا حضر ت بلال حبشی ؓ پر ظلم و تشدد کرنے والوں میں اُمیہ بن خلف اور ابو جہل پیش پیش تھے۔آپؓ کے قبول اسلام کا علم جب ابو جہل کو ہوا تو انہوں نے آپؓ کی ننگی پیٹھ پر گرم گرم سنگریزے رکھ دیتے جن کی حرارت و تمازت آپؓ کا جسم بھون جاتا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ سے محبت آپؓ کو اپنے توحید کے مقصد سے کبھی جدا نہیں کرسکی کیوں کہ جذبۂ عشق ، غیر متزلزل ایمان و عقیدت اور ناقابل شکست عزیمت آپؓ کی امتیازی شان تھی۔آپ ﷺ کے لئے ظلم و تشدد کے یہ واقعات ناقابل برداشت تھے، چناں چہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپﷺ کے حکم پر اُمیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کیا۔آزادی کی نعمت سے سرشار ہونے کے بعد آپؓ اسلام کے پہلے مؤذن بنے۔ابن سعد نے قاسم بن عبدالرحمن ؓ سے روایت کی ہے ۔ ’’حضرت بلالؓ اسلام کے سب سے پہلے مؤذن ہیں ‘‘۔اقبالؒ نے اپنی کتاب بانگِ درا میں حضرت بلالؓ کے لئے چند نظمیں مختص کیں جن میں اذانِ بلالی کا پہلو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اذان ِ ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اِک بہانہ بنی

حضرت بلالؓ نے جنگ بدر اور اُحد کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔آپؓ نے 20ھ میں ساٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ کو جب آپؓ کی وفات کی خبر ملی تو روتے روتے نڈھال ہوگئے۔ بار بار فرماتے تھے۔ ’’آہ! ہمارا سردار حضرت بلالؓ ہمیں داغ جدائی دے گیا‘‘۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.