حضرت ہاجرہ کی سعی

بیت اﷲ کا خوب نظا رہ اور طواف کر نے کے بعد اب میں صفا و مر وہ کی طرف سعی کر نے کے لیے بڑھتا ہوں اب میں صفا کی پہا ڑی تلاش کر تا ہوں صفا کی پہا ڑی تلاش کر نے کے لیے تمام مسلمانوں کو بھی اماں ہا جرہ کی طرح سعی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے ‘آخر کا ر میں بھی صفا کی پہا ڑی تک پہنچ گیا سعی کے با رے میں ارشاد ربا نی ہے ، صفا اور مروہ کی سعی اﷲ کے شعائر میں سے ہے ، میرے سامنے ہزاروں دیوانے صفا و مروہ کے درمیان چلتے دوڑتے نظر آتے ہیں ‘سعودی حکام کے بہترین انتظا مات طا قتور ائر کنڈیشنڈ صاف و شفاف فرش پر دیوانے آب زم زم کے جام پر جام نڈ ھا رہے تھے صفا مروہ کا راستہ خو شبو ؤں سے معطر تھا اِس آرام دہ ماحول میں دیوانے چل رہے تھے دوڑ رہے تھے بیٹھ کر آب زم زم سے شرابور ہو رہے تھے ‘ٹھنڈے یخ ماحول میں اچانک صدیاں ما ضی کی طرف سرکتی چلی گئیں اور میرے سامنے ایک منظر ابھرتا ہے آسمان سوا نیزے پر آگ بر سا رہا تھا لق و دق صحرا بے آب و گنا ہ کے بستی نہ انسان نہ چرند نہ پرند نہ درخت نہ سایہ نہ مکان ایک مضطرب بے چین بے قرار ماں اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ جس کو جب اُس کا خاوند خلیل اﷲ ؑ اس صحرا میں چھو ڑ کر جا رہا تھا تو فرماں بردار بیوی نے صرف ایک دفعہ پو چھا کہ آپ مجھے اِس صحرا میں بے یار و مددگار کیوں چھو ڑ کر جا رہے ہیں اس میں کیا راز پو شیدہے خیل اﷲ ؑ نے ایک نظر بیوی اور بیٹے کو دیکھا پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدا کے کہنے پراور یہ سنتے ہی ماں کو قرار آگیا آہنی لہجے میں کہا آکر یہ خدا کا حکم ہے تو آپ بے فکر ہو جا ئیں اب اِس صحرا میں اﷲ ہی میرا نگہبان ہو گا ماں ہا جرہ کو اپنے رب پر پورا بھروسہ تھا وہ خدا اُس کو بے یا رو مددگار نہیں چھو ڑے گا خلیل اﷲ ؑ نے جا تے جا تے بھر پور نظروں سے بیوی کو دیکھا خلیل اﷲ ؑ کی آنکھوں میں بہت سارے سوال تھے کہ میں تم کو تنہا چھو ڑ کر جا رہا ہوں کیسے گزارا کرو گی خود کو بچے کو کس طرح سنبھا لو گی لیکن ماں چٹا نی لہجے میں بو لی میرا خدا میرے ساتھ ہو گا یہ ماں کا خدا پر تقوی تھا اور اِسی تقوے کی بنا پر قیامت تک کے لیے امر ہو گئیں خلیل اﷲ ؑ خدا کے حکم پر جا رہا تھا تھوڑی دو رجا کر رک کر با رگاہ الٰہی میں ہا تھ بلند کئے اور دعا کی ( القرا ن ابراہیم 36)جب ابراہیم نے کہا اے پرور دگار تو اِس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے با شندوں کو جو اﷲ تعالی پر اور قیا مت کے دن پر ایما ن رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے ( القرآن ابراہیم 38) اے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد اِس بے آب و نہاہ کے بستی کے جنگل میں تیرے حر مت والے گھر کے پاس بسا ئی ہے اے پروردگار یہ اِس لیے کہ وہ نما ز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف ما ئل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنا یت فرماتا کہ یہ شکر گزاری کریں ۔ اور آج اہل دنیا حیرت سے دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے کس طرح خلیل اﷲ ؑ کی دعا کی قبو لیت سے سرفراز کیا ۔ آج مکہ امن کا شہر بھی ہے یہ زمین زرخیز نہ ہو نے کے با وجود دنیا جہاں کے شیریں پھل فروٹ اناج کی فروانی ہے سارا سال یہاں پر سیاحوں کا تانہ بندھا رہتا ہے لاکھوں ہزاروں لو گ سارا سال اور پھر حج پر 50لاکھ سے زائد حاجیوں کی ضروریات کتنی آسانی سے پو ری ہو تی ہیں دنیا کا کو ن سا پھل سبزی اناج ہے جو یہاں نہیں ملتا اور پھر کثرت سے ملتا ہے اور پھر حضرت ابراہیم ؑ اپنی محبوب بیوی اور لا ڈلے اکلو تے بیٹے کو جنگل نما صحرا میں چھو ڑ کر چلے جا تے ہیں اماں ہا جرہ ابھی سوچ وبچار میں ہی گم تھیں کہ اچانک بچہ فطری ضرورت پیا س کے تحت رونا شروع کر دیتا بچے کا رونا کسی بھی ماں سے برداشت نہیں ہو تا اور اگر ماں کو یہ پتہ چل جا ئے کہ اُس کا لا ڈلہ کیوں رو رہا ہے تو پھرماں اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے بچے کو وہ چیز دینے کی کو شش کر تی ہے آگ برساتا سورج گر می جو بن پر خشک بنجر صحرا دور تک صحرا کی گر م ریت پھیلی ہو ئی تھی ریت کے درمیان نو کیلی چٹا نیں جنگل ہی جنگل گرم اڑتا غبا ر حشرات الارض سانپ بچھو چاروں طرف ماں اور اُس کا معصوم بیٹا کسی بھی ماں کی جان اُس کے بچے میں ہو تی ہے ماں کا دل بچے میں دھڑکتا ہے کہ بچے کی سانس بچے کی زندگی کی ڈور سے بندھی ہو تی ہے ماں اپنی جان کو ایک لمحے میں اپنے بچے پر نچھا ور کر نے کو تیار رہتی ہے قدرت کی عظیم حکمت اِس میں پو شیدہ ہے اولاد کا پیار ماں کی تخلیق میں ودیعت کر دیا گیا ہے ماں بچے سے پیا رکرنے پر مجبو رہے اولاد سے پیا ر ماں فطرت کا حصہ ہے ماں کی دعا کیوں فوری قبو ل ہو تی ہے وہ اِس لیے کہ ماں دل کی گہراہیوں سے دعا کر تی ہے ماں یکسو ہو کر دعا کر تی ہے ماں کی دعا میں خالص پن ہو تا ہے ماں اپنی بجا ئے کسی کے لیے اپنی اولاد کے لیے دعا کر تی ہے اماں ہا جرہ اب پریشانی میں چاروں طرف دوڑتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے لاڈلے کے لیے پانی کا بندوبست کر لے تا کہ اپنے بیٹے کی پیا س بجھا سکے بچے کی پیاس اور رونا ماں سے برداشت نہیں ہو تا اب وہ بچے کو کہاں پر لٹا ئے گر م آگ کی طرح جھلسی ریت چاروں طرف پھیلے ہو ئے حشرات الارض سانپ بچھو نو کیلی چٹانیں گرم گر دغبا ر سے گرم ریت پر لٹا تے ہو ئے ماں کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا لیکن لٹا ئے بنا کو ئی چارہ نہ تھا آخر ننھے بیٹے کو گرم ریت پر لٹا کر پانی کی تلاش کا سفر سعی کر تی ہیں آگ برساتا سورج گرم ریت نو کیلی چٹانیں ماں اِن سب کی پروا کیے بغیر پانی کی تلاش میں صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان سر پٹ دوڑنا شروع کر تی ہیں ماں کی ممتا جوبن پر نظر آتی ہے ماں ہر حال میں اپنے بچے کے لیے پانی لا نا چاہتی ہے اب اماں ہا جرہ نے بے قراری بے چینی شدید اضطراب میں صفا و مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان پا نی کی تلا ش میں دوڑنا شروع کر دیا شدید گرمی تھکا وٹ پسینے کی پروا کئے بغیر ماں دوڑ رہی تھی اماں صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان پا نی کی تلاش میں دوڑ رہی ہو تی ہیں پانی نہیں ملتا لیکن وہ پھر بھی پا نی کی امید میں لگا تا ر دوڑتی رہتی ہیں معصوم بچہ گرمی پیا س سے بے حال ہو کر اِدھر اُدھر پہلو بدلتا ہے ماں اور بچے کی بے قراری اضطراب عروج پر پہنچتا ہے بو ڑھا آسمان ہو ائیں فضا ئیں آسمان پر فرشتہ اور رحیم کریم پروردگار اِس منظر کو حیرت محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ماں کی بے قرار دوڑ اضطراب بے چینی دعا خدا نے عرش پر دستک دے رہی ہو تی ہے ستر ماؤں سے زیا دہ شفیق پروردگار کی رحمت چھلکنے کو تیا ر ہوتی ہے پانی کی تلاش میں اماں ہا جرہ صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر چکر لگا تی ہیں جب پانی نہیں ملتا تو امید پر دوسرا چکر لگا تی ہیں پانی نہ ملنے کے باوجود ماں کی امید کی کرن نہیں بجھتی وہ بار بار صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان دوڑتی ہیں ایک طرف ماں دوڑ رہی ہے دوسری طرف ننھا بیٹا بے چینی میں کرو ٹیں بدل رہا ہے اپنی ایڑیاں زمین پر مار رہا ہے اور ماں ہمت ہا رنے کو تیا ر نہیں ماں کا جسم پسینے میں بھیگ جاتا ہے تھکا وٹ جسم پر غلبہ پانا چاہتی ہے سانسیں پھول جا تی ہیں پریشانی بے قراری عروج پر لیکن ماں پھر بھی کو شش کر تی ہے پہا ڑیوں کے درمیان ماں کی سعی خدا کی رحمت کو بیدار کر چکی تھی ماں کی ادا اﷲ کو بھا گئی تھی فرشتے کو حکم مل چکا تھا اور پھر جبرائیل آمین ننھے بچے کے پاس آکر اُس جگہ اپنا پر مارنا ہے جہاں بچہ بے چینی میں ایڑیاں مار رہا ہو تا ہے جیسے فرشتے نے پر مارا اور زمین سے پا نی کے چشمے ابل پڑے تھکی ہا ری پسینے میں شرابور ماں جب آتی ہے تو حیرت انگیز منظر دیکھتی ہے بیٹے کے چاروں طرف پا نی ہی پانی تھا چاروں طرف سے پانی اُمڈ کر آرہاتھا ماں نے دوڑ کر بچے کو پکڑا اُسے پا نی پلا یا پھر خو د پیا پھر پا نی کو محفوظ کر نے کے لیے ادھر اُدھر سے پتھر لا کر بند باندھنے کی کو شش کر تی ہے جب پا نی کے آبشار بند نہیں ہو تے تو اماں ہاجرہ زور زور چلا کر کہتی ہیں ـ’’ زم زم ‘‘ پانی رک جا اور پھر اماں کے حکم پر پانی رک جا تا ہے اماں ہا جرہ کی سعی اور بیٹے کی ایڑیوں سے نکلنے والا چشمہ حیات سے کروڑوں انسان سیراب ہو چکے ہیں اور قیامت تک اربوں انسان سیراب ہو نگے ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 652473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.