بچوں کی تعلیم و تربیت

 بچے گھر کی رونق اور آنگن میں مہکتے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، جس گھر کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے وہ گھر ایسے باغ کی مثل ہے جس میں کبھی بہارنہ آئی ہو۔بچوں کے بغیرگھربے رونق اور خوشیوں سے خالی رہتاہے۔اولاد اﷲ سبحان تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں ایسی خوبصورت نعمت ہے جس کیلئے اﷲ تعالیٰ نے والدین کے دلوں میں بے لوث محبت کے خزانے رکھ دیئے ہیں۔کائنات کی تمام نعمتیں ایک طرف اور اولاد ایک طرف۔ انسانی فطرت ہے کہ بچوں کے بغیردیگرتمام نعمتیں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔جب اﷲ رب العزت اولاد کی نعمت عطافرمادیتاہے توپھرپرورش اورتعلیم وتربیت کی ذمہ داری نبھاتے انسان کی زندگی گزرجاتی ہے۔ بچہ جب اس دنیا میں آنکھیں کھولتاہے تو بالکل معصوم اورکورے کاغذ کی مانندہوتا ہے جس پر والدین اوراساتذہ کی تعلیم وتربیت کے بعد معاشرہ تحریریں رقم کرتاہے۔جہاں بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے وہیں بچہ اپنے باپ کی شخصیت سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اس کی تعلیم وتربیت ہے۔بچے اخلاقی و معاشرتی قدریں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اطراف سے بھی سیکھتے ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت والدین کا اوّلین فرض اورخواہش ہوتی ہے۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار فوائد ہیں۔باشعور،تعلیم یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی اور ملک وقوم کی ترقی اورخوشحالی کا سبب بنتی ہے۔والدین کے بڑھاپے کا سہارا اوران کے مرنے کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ یہ شائد دنیاکی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ بچے والدین سے وقت مانگتے ہیں جو والدین کے لیے دینا آج کے جدید دور میں مشکل ترین کام ہے ،خاص کر والد کے لیے ہمارے ہاں مرد حضرات کام کے سلسلہ میں صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات کو دیر سے گھرلوٹتے ہیں ،والد کی کئی کئی دن بچوں کے ساتھ جاگتے میں ملاقات ہی نہیں ہوپاتی صبح سویرے بچے سورہے ہوتے ہیں اور رات واپسی پر بھی سوچکے ہوتے ہیں ۔فکر روزگار نے ہمیں اپنے بچوں سے اس قدر دور کردیا ہے کہ ہم ان کی پرورش کے لیے انہیں اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنی کہ ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ پانچ سے چھ سال کی عمرکے بچوں کے لیے گھر ہی پہلا مدرسہ ہوتا ہے جہاں بچے والدین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔چلنا ،بولنا ،اٹھنے ،بیٹھنے کا طریقہ اور ہر طرح کا رویہ اختیار کرنابچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں ۔والدین بچوں کیلئے وراثت میں دولت،زمین جائیداد اورکاروبارہی نہیں بلکہ رویے ،عادات ،صحت و بیماری سمیت بہت ساری آسانیاں اور پیچیدگیاں بھی وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ والدین کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ذمہ دار رؤیہ اختیار کریں گھر کے پر سکون ماحول میں پرورش پائیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے پرورش پانے والے تمام بچے ایک جیسا مزاج اختیار کریں ،والدین کے لیے ایسی صورتحال یقینا باعث اطمینان ہوتی ہے کہ ان کے بچے رقابت کی بجائے مل جل کررہنا پسند کریں۔تاہم یہاں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے ۔بچوں میں اعتماد کارشتہ قائم رکھنا یقینا مشکل ہے۔ ابتدائی عمر یعنی پانچ سے چھ سال کی عمر سے ہی بچوں کی اخلاقی ذہنی اور تعلیمی تربیت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کی تربیت بھی دی جائے تو کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ بہترین اور نہایت اہم وقت ہوتاہے۔کیونکہ پانچ چھ سال کی عمر کے بچے زیادہ تر گھر میں والدین کے پاس ہی رہتے ہیں اس لیے اس عر صے میں بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ساری کی ساری والدین خاص طور پر والدہ پر ہی ہوتی ہے ۔بد قسمتی سے والدین جب بچوں کے سامنے مثبت اور یکساں رویہ نہیں رکھتے تب بچوں کو مثبت اور یکساں رویہ قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔یکساں رویہ اختیار کرنا شائد ممکن ہی نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کوایک جیسا عقل وشعور عطا نہیں کیا ہوتا ،تاہم مثبت رویہ اختیار کرنا ممکن ہے ،ہم لوگ جھوٹ کی وکالت کرنااپنی عادت بنا چکے ہیں ، ہم بچوں کے سامنے سارا دن جھوٹ بولتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بیماری بہت عام ہے کہ ہم چھوٹی عمر کے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ سکول و مدرسے شروع ہوتا ہے ۔یہ بڑی بیماری بھی ہماری ہاں کثرت سے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہم بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ کاسہارا لیتے ہیں ۔یعنی بچہ کسی وجہ سے رو پڑے تو اسے چپ کروانے کے لیے مائیں کہتی ہیں ،وہ دیکھوں بلی آئی،وہ دیکھو چھپکلی آئی وغیرہ وغیرہ جب کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔دیہاتوں میں زیادہ تر مائیں یہ بھی کہتی ہیں چپ کرجاؤ نہیں تو باوُ آجائے گا،یعنی ایسی انجانی چیزکا نام جسے وہ خود بھی نہیں جانتی ،جس کا کہیں کوئی وجود تک نہیں ہوتا،مائیں اس بات سے بے خبر ہوتیں ہیں کہ یہ ساری چیزیں بچوں کے شعور میں بیٹھ کر ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اورسکول و مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ بھی بہت کم بچوں کے شعو ر سے ان چیزوں کوجُدا کرپاتے ہیں۔راقم کے خیال میں پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کی تربیت سچ اور مثبت حکمت عملی کے ذریعے کی جائے تو اساتذہ بھی بچوں کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں ۔ چھوٹی عمر کے بچے کو والدین کہتے ہیں چپ کرجاؤ نہیں تو جن یا باوُ آجائے گا تواکثر بچے اس بات سے خوفزدہ رہنے لگتے اور اپنے ہی گھر میں ڈرتے رہتے ہیں ،رات کے وقت بجلی بند ہونے کی وجہ سے اندھرا ہوجائے تو بچے بری طرح ڈرکر زور زور سے رونے لگتے ہیں ،اس ڈر کو ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی بچوں کے دل سے نہیں نکال پاتے۔غور کریں ہماری چھوٹی سی غلطی ہمارے بچوں کو ساری زندگی کے لیے خوفزدہ کردیتی ہے ۔ایسا جھوٹ بول کر روتے ہوئے بچوں کو چپ کروانے سے بہتر نہیں کہ انہیں تھوڑی دیر کے لیے روتا چھوڑ دیا جائے ؟

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 508093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.