حلقہ این اے 4 ضمنی الیکشن …… بڑا دنگل

 الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار پشاور میں خالی نشست پر ضمنی انتخاب کے انعقاد کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے، جو جمعرات کو ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر پاک فوج کے جوان پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات ہوں گے، جب کہ بیلیٹ پیپرز کی پولنگ اسٹیشن تک ترسیل بھی فوج کی نگرانی میں کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات فوج کے اعلیٰ افسران کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ بیلٹ پیپرز کی ترسیل سے لے کر نتائج کے اعلان تک سیکورٹی کے ذمہ دار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 4 پشاور کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے پاس گزشتہ کل رات 12بجے انتخابی مہم کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ رات 24 اکتوبر کی رات کے بعد کسی قسم کے اجتماع یا انتخابی مہم میں ملوث امیدوار یا سیاسی جماعت کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس خلاف ورزی پر 6 ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ حلقہ این اے 4 کے ضمنی الیکشن میں پشاور میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کیا جائے گا، جس کا مقصد انتخابی عمل میں شفافیت لانا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ مشینوں کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ چیف الیکشن کمیشن کو ارسال کی جائے گی۔ حلقہ این اے 120 میں بائیو میٹرک کے بعد اب اس جدید سسٹم کے ذریعے انگوٹھے کے نشان کی مدد سے ووٹر اور ووٹنگ کی نشاندہی ہو سکے گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ابتدائی طور پر 35 پولنگ سٹیشنز میں 100 پولنگ بوتھوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کااستعمال کیا جا ئے گا، جس کے لیے اضافی عملہ تعینات کیا جائے گا۔

صوبائی دارالحکومت پشاور کے حلقہ این اے 4پشاور چار میں پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی گلزار خان کے انتقال کے باعث خالی ہوئی نشست پر26اکتوبر کو انتخاب ہوگا۔ اس سیٹ کو جیتنے کے لیے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں۔ ان پارٹیوں کے امیدواروں کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 4 میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 10 اور پی کے 11 شامل ہے۔ پی کے 6 کی چار یونین کونسلز، پی کے ٹو اور پی کے 9 کی ایک ایک یونین کونسل بھی اسی میں آتی ہیں۔اس حلقے میں ضمنی الیکشن میں 14 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ضمنی انتخاب میں مختلف قومی سیاسی جماعتوں کے 5 اور 9 آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف این اے 4 میں شامل تمام صوبائی حلقوں سے کامیاب ہو چکی ہے۔ اس سیٹ کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ارباب عامر، مسلم لیگ ن کے ناصر خان موسیٰ زئی، جماعت اسلامی کے واصل فاروق، عوامی نیشنل پارٹی کے خوشدل خان ایڈوکیٹ، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مرحوم گلزار خان کے صاحبزادے اسد گلزار کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو جمعیت علماء اسلام اور قومی وطن پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ بعض تجزیہ کار پی ٹی آئی کے مقابلے میں ن لیگ کے امیدوار ناصر موسیٰ زئی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کو زیادہ مستحکم قرار دے رہے ہیں۔

پشاورکے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار پر 26اکتوبر کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے دارمقابلہ متوقع ہے۔ اس حلقے پر ہونے والے ضمنی انتخابات کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے بہت اہم تصور کیا جارہا ہے، جس سے نہ صرف یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ کس پارٹی کی کتنی مقبولیت ہے، بلکہ یہ بات بھی واضح ہو جا ئے گی کہ آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی متوقع پوزیشن کیا ہو گی۔ اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام بڑی جماعتوں کی مرکزی قیادت بھی انتخابی مہم میں مصروف ہے۔ یہ نشست پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ایم این اے گلزارخان کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ان کے فرزند اسد گلزارخان کو میدان میں اتارا ہے۔ اس حلقے میں ان کا خاندان اچھے اثرورسوخ کا حامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) 2013 کے الیکشن میں اس حلقہ سے دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے امید وار ناصر موسیٰ زئی کو سامنے لائی ہے۔ ناصر موسیٰ زئی نے بیس ہزار سے زاید ووٹ لیے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے مضبوط امیدوار کو میدان میں اْتارا ہے، تاکہ اگر سیٹ جیتی نہ جاسکے تو زیادہ سے زیادہ ووٹ لے کر آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی پوزیشن مضبوط ہو۔ خوشدل خان 2008ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی کے 10 سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اپنے دورحکومت میں ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بھی رہے، جبکہ 2008 کے الیکشن میں این اے 4 پربھی اے این پی کے ہی امیدوارنے کامیابی حاصل کی تھی۔ روایتی طور پر یہ حلقہ اے این پی کا رہا ہے، تاہم 2013کے عام انتخابات میں اے این پی نے اس سیٹ پر 15700 ووٹ لے کر چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ صوبے میں برسراقتدار جماعت نے بھی اس سیٹ پر ہونے والے ضمنی الیکشن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ارباب عامر کو ٹکٹ دیا ہے جو حال ہی میں اے این پی سے مستعفی ہو کر تبدیلی کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس سے پہلے ارباب عامر ٹاون تھری کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ ارباب عامر چونکہ ظہیرخان کے بھائی ہیں، جو اے این پی کے پلیٹ فارم پر اسی حلقہ سے 1990، 1993، 1997 اور 2008 میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ تاہم اے این پی نے 2013 کے الیکشن میں اس کو نظر انداز کرکے ارباب محمد ایوب جان کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ارباب ظہیرخان کا اپنا ذاتی ووٹ کافی زیادہ ہے اور اس حلقے میں کافی اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اربا ب ظہیر کا ذاتی ووٹ ملاکر پی ٹی آئی یہ سیٹ آسانی کے ساتھ جیت سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ الیکشن میں اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں گی۔ ایک طرف صوبائی حکومت نے صوبے کے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے تو دوسری طرف حکومت سمیت منتخب نمائندوں نے بھی حلقہ کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی نظریاتی رہنما کو میدان میں اتارنے کی بجائے ایک روایتی امیدوار کو سامنے لے آئی ہے۔ جس سے پارٹی کے کچھ رہنما ناراض ہو کر آزاد الیکشن لڑرہے ہیں۔ آزاد امیدوار سامنے آنے سے پارٹی کے ووٹ کو بھی کافی نقصان ہوگا، تاہم اگر حکمران جماعت اس کے باوجود سہ فریقی اتحاد کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پی ٹی آئی کو آئندہ الیکشن میں ناقابل شکست ہو جائے گی۔ تحریک انصاف نے 35 ہزار لیڈ سے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اگرچہ حکمران جماعت کا امیدوار باقی امیدوارں کی بنسبت مضبوط نظرآرہا ہے، لیکن دوسری طرف اس کے حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اس کو شکست دینے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اور دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی دوسری بڑی مخالف جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ جے یوآئی گزشتہ انتخابات میں اس حلقہ سے بارہ ہزار ووٹ لے کر پانچویں نمبر پر رہی تھی اور 2002 کے الیکشن میں اس حلقہ سے متحدہ مجلس عمل نے میدان مار لیا تھا۔ قومی وطن پارٹی نے بھی ن لیگ کے امیدوار کی حمایت میں اعلان کر رکھا ہے جو ہر حال میں اپنے سابق اتحادی کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی جو اس حلقے میں کافی سارے ووٹوں کی مالک ہے، نے بھی ن لیگ کے امیدوار کو کامیاب کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی کی اتحای جماعت اسلامی بھی اس حلقہ سے اپنا امیدوار میدان میں اتارچکی ہے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جماعت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار کریں، مگر جماعت اسلامی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ جہاں تک اس ضمنی انتخاب سے آئندہ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت کا اندازہ ہوجائے گا، وہاں پر یہ با ت بھی واضح ہو رہے ہے کہ آئندہ الیکشن میں اپوزیشن پارٹیاں پی ٹی آئی کو زیر کرنے کے لیے اتحاد کی طرف جا ئیں گی تو دوسری طرف پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے نظر آئیں۔

حالیہ ہفتوں میں تقریباً سب ہی بڑی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اس حلقے کے انتخاب کے لیے انتخابی جلسے منعقد کر چکی ہے اور اتوار کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی یہاں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نشست پر کامیابی کے لیے ہر جماعت بھرپور مقابلہ کرے گی، کیونکہ اسے آئندہ عام انتخابات کے لیے کسی حد تک ووٹر کے رجحان کا بھی پتا چلے گا۔ مزید برآں اس ضمنی انتخاب میں حال ہی میں معرضِ وجود میں آنے والی ملی مسلم لیگ اور تحریکِ لبیک کے حمایت یافتہ امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ وہ کافی حد تک زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے حامی امیدواروں نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے تیسرے اور چوتھے نمبر پر رکھی تھیں۔ تاہم یہ 26اکتوبر کو ہی معلوم ہوگا کہ حلقہ این اے 4 میں کون فاتح ہوگا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.